اعتکاف کے چند مسائل

,

رمضان المبارک میں اعتکاف کے سلسلے میں عام روایت یہ سنتی آئی تھی کہ لوگ ۲۶؍رمضان سے اعتکاف میں بیٹھتے ہیں اور چاند ہوجانے پرباہر آجاتے ہیں۔ چناں چہ ایک مرتبہ خود میں نے بھی ایسا ہی کیا لیکن ۱۰؍دسمبر ۱۹۶۸ء کے سہ روزہ دعوت میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا درس حدیث مرتبہ حفیظ الرحمٰن احسن صاحب نظر سے گزرا۔ اس میں اعتکاف کے بارے میں متعدد احادیث کی تشریح تھی لیکن تین دن کے اعتکاف کے بارے میں کوئی حدیث نہ تھی۔ پھر یہ روایت کہاں سے نکلی اور لوگوں میں کیسے رائج ہوئی؟ براہ کرم اس کی وضاحت کیجیے۔ بعض اردو کتابوں میں یہ بھی پڑھا کہ اعتکاف رمضان کے بعد بھی ہوسکتا ہے اور حضورؐ نے ایسا کیا بھی ہے، لیکن اس میں کسی حدیث کا حوالہ نہ تھا۔ نیز یہ بھی بتائیے کہ اعتکاف کے شروع ہونے کا وقت کیا ہے؟ کیوں کہ کوئی ۲۰؍رمضان بعد فجرلکھتا ہے اور کوئی بعد عصر اور کوئی بعد مغرب۔ اعتکاف اگر عید کے مہینے میں ہوسکتا ہو تو بڑی خوشی ہوگی۔

جواب

آپ نے رمضان میں تین دن کے اعتکاف کا جو ذکر کیا ہے وہ نفل اعتکاف ہے۔اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔ واجب،سنت،نفل۔  واجب اعتکاف وہ ہے جس کی نذرمانی گئی ہو۔ کیوں کہ علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ جائز نذر کا پورا کرنا واجب ہے۔ نذر اعتکاف کم سےکم ایک دن کاہوتاہے جس میں رات بھی شامل ہوتی ہے اور اس اعتکاف میں روزہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے کہ واجب اعتکاف روزے کے بغیر صحیح نہیں ہوتا۔ ایک دن کے نذر اعتکاف کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ مسلم شریف میں ہے

’’حضرت عمرؓ نے حضورؐ سے کہا کہ میں نے اسلام لانے سے پہلے نذرمانی تھی کہ ایک دن مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔‘‘

اعتکاف کی دوسری قسم سنت ہے اور یہ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کا اعتکاف ہے۔ اس کے مسنون ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک ہمیشہ ان دس دنوں کااعتکاف کرتے رہے۔حدیث کی تمام کتابوں میں اس مسنون اعتکاف کا ذکر ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔‘‘

دوسری حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اس دنیا سے اٹھالیا اورآپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔‘‘

یہی رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف مشہورہے۔اوریہی مسلمانوں میں رائج بھی ہے۔اوریہ رمضان المبارک کی مخصوص عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ فقہا اس کو سنت موکدہ لکھتے ہیں۔

اعتکاف کی تیسری قسم نفل ہے۔ اس کے لیے نہ روزے کی شرط ہے اورنہ کسی خاص دن کی۔ عیدالفطراورعیدالاضحی کے ایام چھوڑکر سال کے کسی دن بھی یہ اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک دن کا بھی ہوتاہے اس سے زیادہ بھی اور اس سے کم بھی۔ یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوتےہی اعتکاف کی نیت نویت الاعتکاف مادمت فی ھذا المسجد (میں اعتکاف کی نیت کرتاہوں جب تک اس مسجد میں  رہوں )  کی جاسکتی ہےچناں چہ لوگ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔  یہ نیت کرنے والا جتنی دیر بھی مسجد میں رہے ان شاء اللہ اس کو اعتکاف کا اجر بھی ملے گا۔

رمضان میں تین دن جو لوگ اعتکاف کرتے ہیں وہ اسی نفل اعتکاف کی قسم میں داخل ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہواکہ نفلی اعتکاف رمضان میں بھی ہوسکتا ہے، عید کے مہینے میں بھی اوراس کے بعد بھی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں بھی اعتکاف کیا ہے۔ لیکن اس کی حیثیت رمضان کے اعتکاف کی قضاکی ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ حضورؐ نے صرف ایک بار شوال میں اعتکاف کیا ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک بار رمضان میں حضرت عائشہؓ نے آپ سے اعتکاف کی اجازت مانگی۔ آپ نے اجازت دے دی اور ان کے لیے بھی مسجد نبوی میں ایک جگہ گھیردی گئی۔ یہ سن کر حضرت حفصہؓ نے بھی ایسا کیا، اور پھر حضرت زینبؓ نے سنا تو انھوں نے بھی اپنے لیے جگہ محفوظ کرائی۔ حضورؐ نے جب مسجد میں چارقبے (اعتکاف کے لیے گھری ہوئی مخصوص جگہیں ) دیکھے تودریافت فرمایا یہ کیا ہے؟ جب آپ کو خبردی گئی تو آپ نے فرمایا  کس چیز نے ان کو اس پر آمادہ کیا؟ کیا یہ نیکی ہے؟آپ نے سب چادریں یاچٹائیاں ہٹوادیں اوراس سال خود بھی رمضان کے بجائے شوال کے اخیر میں دس دن اعتکاف کیا۔ اس حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے اخیر عشرے کا پابند ہواور کسی سال معذوری کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تواس کی قضا شوال میں کرسکتا ہے اور اس طرح اس کا مسنون اعتکاف ادا ہوجائے گا۔ لیکن اس اعتکاف میں اس کو دس دن کے روزے بھی رکھنے چاہییں۔  یہ بھی ذہن نشین رکھیے کہ سنت کی قضا سنت ہی ہوتی ہے۔ واجب نہیں ہوتی۔ البتہ فقہ حنفی کی روسے ایک صورت میں مسنون یا نفلی اعتکاف کی قضا واجب ہوجائے گی۔وہ صورت یہ ہے کہ کسی نے اخیر عشرے کا مسنون اعتکاف شروع کردیا لیکن کسی وجہ سے مکمل کیےبغیر اس کو اعتکاف سے نکل آنا پڑا تواب اس کی قضا واجب ہوجائے گی۔ اسی طرح کوئی شخص اگر نفلی اعتکاف مکمل نہ کرسکے تو اس کی قضا بھی واجب ہوگی۔

اعتکاف کے شروع ہونے کا وقت چاروں ائمہ ابوحنیفہ، مالک،شافعی اوراحمد رحمہم اللہ کے نزدیک غروب آفتاب ہے۔ سورج ڈوبنے کے فوراً بعد سے اخیرعشرہ کے اعتکاف کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے ۲۰؍رمضان المبارک کو سورج ڈوبنے سے پہلے بہ نیت اعتکاف مسجد میں داخل ہوجانا چاہیے۔تاکہ دس دنوں کا کوئی لمحہ بھی اعتکاف کے بغیر نہ گزرے، یا عورت اپنےگھر میں کوئی جگہ مخصوص کرکے اعتکاف کرنا چاہتی ہوتو اس کو بھی سورج ڈوبنے سے پہلے اس جگہ پہنچ جانا چاہیے۔ اگرکسی نے عصر کے بعد لکھا ہے تواس کا مقصد یہی ہوگا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائے اور افطاروہیں کرے۔ اور جس نے مغرب کے بعد لکھا ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اعتکاف کا وقت غروب کے بعد شروع ہوتا ہے۔ باقی رہی فجر کے بعد والی بات تو ایک حدیث کی بناپر بعض علمااس کے قائل ہیں کہ اعتکاف کا وقت فجر کے بعد شروع ہوتاہے۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضورؐ۲۰؍رمضان المبارک کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے داخل ہوجاتے تھے اور تمام شب عبادت کرنے کے بعد ۲۱؍رمضان المبارک کو نماز فجر کے بعد مخصوص جگہ میں داخل ہوجاتے تھے۔ جو آپ کے لیے چٹائیوں سے گھیرکرتیار کی جاتی تھی۔واللہ اعلم بالصواب                (فروری ۱۹۶۹ء،ج۴۲،ش۲)