اقامت دین کی حکمت عملی

کیا آپ چاہتے ہیں کہ اب اقامت دین کی جدوجہد انبیا کے طریق عزیمت کو چھوڑ کر صرف رخصتوں اور حیلوں ‘ مصلحت پرستیوں ہی کے بل پر چلے اور سیاسی اغراض کے لیے دین کے جس اصول میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہو اسے حدودِ شریعت کا لحاظ کیے بغیر دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کر ڈالا جائے؟
جواب

اس شق میں آپ نے جن اعتراضات و الزامات کا خلاصہ درج کیا ہے ان کی بنیاد تین صریح غلط بیانیوں پر ہے جنھیں نہ معلوم کس اضطرار کی حالت میں حلال کر لیا گیا ہے۔
اوّل یہ کہ میں اب اقامت دین کی جدوجہد طریقِ عزیمت کو چھوڑ کر صرف رخصتوں اور حیلوں اور مصلحت پرستیوں ہی کے بل پر چلانا چاہتا ہوں حالانکہ دراصل میرے نزدیک اصل شاہراہ یہی طریقِ عزیمت ہے اور اسی پر چلنے اور اپنی جماعت کو چلانے کی میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے البتہ میں نے کبھی اپنی جماعت کو حالات کی تبدیلی کے ساتھ مباح و جائز تدابیر میں سے بعض کے ترک اور بعض کے اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے، اور کبھی بالکل مستثنیٰ مواقع پر دو ناگزیر برائیوں میں سے بڑی برائی کو دفع کرنے کے لیے ایک کم تر درجے کی برائی تابحدِّ ضرورت اختیار کرنے کی بھی راے دی ہے۔ اسی چیز کو (خدا ہی جانے کن پاکیزہ جذبات کے ساتھ) الزام تراشیوں کا بہانہ بنا لیا گیا ہے اور شور مچایا جا رہا ہے کہ یہ شخص تو اب بس رخصتوں ، حیلوں اور مصلحت پرستیوں ہی پر اتر آیا ہے۔
دوم یہ کہ میں اپنی کوئی سیاسی اغراض رکھتا ہوں اور انھی کی خاطر میں نے ایسا کیا ہے حالانکہ میں نے آج تک جو کچھ کیا ہے وہ صرف دین کو زندگی کا نظامِ غالب بنانے کی خاطر کیا ہے، میری کوئی سیاسی یا ذاتی غرض اس میں کار فرما نہیں رہی ہے۔
سوم یہ کہ میں دین کے جس اصول میں ترمیم کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اسے حدود شرعیہ کا لحاظ کیے بغیر دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کر ڈالنا چاہتا ہوں حالانکہ میں اس شخص کو خدا کی لعنت کا مستحق سمجھتا ہوں جو ایسا کرے یا اس کا قائل ہو۔ میرا مسلک اس باب میں جو کچھ ہے اسے میں اس مضمون میں جگہ جگہ واضح کر چکا ہوں ۔ میں نہ دین کے کسی اصول میں ’’ترمیم‘‘ کا قائل ہوں ، نہ حدودِ شرعیہ سے یک سرِمُو باہر جانے کو جائز رکھتا ہوں اور نہ دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کوئی کام کرنا صحیح سمجھتا ہوں جب تک کہ میں دلائل شرعیہ سے واقعی اس کو دینی حکمت و مصلحت نہ ثابت کر سکوں اور اس کام کے جائز ہونے کی شرعی دلیل نہ دے سکوں ۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۹ء)