جواب
یہ خلجان جس کا ہما رے محترم رفیق نے اظہار فرمایا ہے،اس سے وقتاً فوقتاً ہمیں سابقہ پیش آتا رہتا ہے اور متعدد مواقع پر اس کو رفع کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔آپ رسائل و مسائل ] سوال نمبر۸۴۸،۸۴۹ [ میں اس کا جواب پا سکتے ہیں ۔ تفہیم القرآن کے مقدمے میں بھی ’’قرآنی سلوک‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے اس کے بعض پہلوئوں سے بحث کی گئی ہے۔ ترجمان القرآن میں پچھلے دنوں جو اشارات نکلتے رہے ہیں ،ان میں بھی اس کے بعض گوشوں سے تعرض کیاگیا ہے۔یہ چیزیں اگر کوئی شخض بغور پڑھے تو اُمید ہے کہ بڑی حد تک اس کی تشفی ہوجائے گی۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ خلجان پوری طرح رفع نہیں ہوسکتا جب تک آدمی اس کی تشخیص اور اس کا علاج باقاعدگی کے ساتھ نہ کرے۔پہلے اس کا سر اتلاش کیجیے کہ یہ شروع کہاں سے ہوتا ہے۔
غالباًاس کی ابتدا اس مقام سے ہوتی ہے کہ آپ’’اقامت دین‘‘کا جب تصور کرتے ہیں تو معاًآپ کے سامنے دورنبوت اپنی ساری تاب ناکیوں کے ساتھ آجاتا ہے اور اس خیال سے آپ کا دل بیٹھنے لگتا ہے کہ وہ عظیم راہ نما ؐ اور و ہ بے نظیر کارکن آج کہاں ہیں جن کے ہاتھوں یہ کام اس وقت ہوا تھا۔میں عرض کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے آپ اسی ابتدائی مقام پر پھر واپس پہنچ جایئے اور کسی دوسرے سوال پر غور کرنے،یا آگے بڑھنے سے پہلے اپنے دل کا جائزہ لے کر تحقیق کیجیے کہ یہ سوال آ پ کے دل میں اُبھرتا ہے تو اس کے ساتھ کس قسم کے رجحانات آپ کے نفس کو اپنی طرف کھینچنا شروع کرتے ہیں ؟ آپ گہراجائزہ لیں گے تو نمایاں طور پر دو رجحانات کی کشش آپ کو خود محسوس ہوگی۔
ایک یہ کہ مایوس ہوجائو۔اب نہ وہ راہ نما اور وہ کارکن میسر آئیں گے،نہ یہ کام ہوسکے گا۔اس لیے بہتریہ ہے کہ پورے دین کی اقامت کا تصور ہی چھوڑ دو۔ جو کام ہونہیں سکتااس کے پیچھے پڑنے سے کیا حاصل۔دین کی جزوی خدمت میں سے کوئی ایک خدمت اپنے ہاتھ میں لے لو اور جیسی کچھ بری بھلی بن آئے،کرتے رہو۔ میں اپنے ذاتی تجربات ومشاہدا ت کی بنا پر کہتا ہوں کہ یہ اولین رجحان ہے جو اس مقام پر آدمی کے سامنے آتا ہے، اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ پہلا دھوکا ہے جو شیطان ایک نیک نفس مسلمان کو دیتا ہے تاکہ وہ اقامت دین کے نصب العین سے کسی طرح باز آجائے۔ اس لیے آگے کی کوئی بات سوچنے سے پہلے آپ کو چاہیے کہ اس فریب کو اوّل قدم ہی پر پہچان لیں اور اگر آپ نیک نیت ہیں تو پورے شعور اور عزم کے ساتھ اپنے ذہن میں پہلے اس کا اچھی طرح قلع قمع کردیں ۔
دوسرا رجحان جو اس کے بعد سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ یہ کام ہے تو بے شک ضروری اور فرض،مگر اس کے لیے راہ نمائوں اور کارکنوں میں وہی روحانی واخلاقی اوصاف درکار ہیں جن کی بدولت عہد نبویؐ میں یہ کام ہوا تھا،لہٰذا پہلے ویسے بن جائو اور اس طرز کے آدمی بنالو، پھر اس کام میں لگو — یہ دوسرا دھوکا ہے جو پہلے دھوکے سے بچ نکلنے والے کو شیطانِ رجیم دیا کرتا ہے۔وہ جب دیکھتا ہے کہ یہ شخص اس نصب العین پر جم گیا ہے اور اس سے ہٹنے پر کسی طرح پر راضی نہیں ہوتا،تو پھر وہ اس کوفکر کے بجاے تدبیر کی ایک غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ اس سے کہتا ہے کہ بے شک دریا پار جس منزل مقصود کی طرف تو جانا چاہتا ہے وہ ہے تو منزل مقصود ہی، مگر بے وقوف! تیرنا سیکھے بغیر دریا میں اُترے گا؟پہلے دریاسے باہر خشکی پر تیرنے کی مشق اچھی طرح کرلے، پھر دریامیں قدم رکھ! اس طرح وہ ناصح مشفق، آدمی کو واقعی بے وقوف بنادیتا ہے، اور جو لوگ اس کے دائوں سے مات کھا جاتے ہیں وہ سب نہ صرف خود خشکی پر تیراکی کی مشق شروع کردیتے ہیں بلکہ جن جن لوگوں کو اپنے ساتھ لے چلنا چاہتے ہیں ،ان کو بھی خشکی کا تیراک بنانے میں خوب مہارت فن دکھاتے ہیں ۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان ماہرین فن کو اکثر تو عمر بھر دریا میں اُترنے کی ہمت نہیں ہوتی، اور اگر کبھی اُتر جاتے ہیں تو زمین پائوں تلے سے نکلتے ہی یا غرق ہوجاتے ہیں یا دریا کے بہائو پر بہ نکلتے ہیں ۔کیوں کہ دریا سے باہر خشکی پر تیراکی میں جو کمال پیدا کیا جاتا ہے،وہ دریا کی روانی سے پہلا سابقہ پڑتے ہی کالعدم ہوجاتاہے۔
اس کی مثال تلاش کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ۔اپنے ہی ملک کے ان علما کا حشر دیکھ لیجیے جنھوں نے درس حدیث وفقہ کی مسندوں اور تزکیۂ نفس کے زاویوں سے نکل کر ملکی سیاست کے بحر مواج میں چھلانگ لگائی تھی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان نفوس قدسیہ کی برکت سے دریا کی رفتار کا رخ بدل جاتا اور اس کی گندگیاں دور ہوجاتیں ۔ مگر ہوا یہ کہ وہ خود اس کی گندگیوں میں لت پت ہوگئے اور دریا کا رخ موڑنے کے بجاے خود اس کے رخ پر مڑ گئے۔ آپ ان بزرگوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیں ۔ اس میں کیسے کیسے نام ور استاد انِ فن سباحت شریک ہیں ۔ مگر اس مشاہدے کو اب کون آنکھوں والاجھٹلا سکتا ہے کہ یہ سارے ہی استاد اپنے مایۂ ناز شاگردوں اور خلیفوں سمیت یا تو غرق ہوئے یا بہہ گئے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ شیطان کے اس دھوکے کو بھی اچھی طرح پہچان لیں اور اگر واقعی خدا کی راہ میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دل کو اس کی ہر کھٹک سے صاف کیے بغیر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھیں ، ورنہ راستے میں ہر قدم پر یہ آپ کے اندر بھی کمزوری پیدا کرتا رہے گا،اور آپ کے توسط سے دوسرے بہت سے ساتھیوں تک بھی اس کا اثر متعدی ہوگا۔
ان دونوں رجحانات کی غلطی کو اگر آدمی آغاز ہی میں محسوس کرلے تو وہ اُس طریق تزکیہ وتربیت کو آپ سے آپ ترجیح دے گا جسے ہم نے ترجیح دی ہے۔لیکن اس راہ پر چند قدم چلتے ہی یکے بعد دیگرے کچھ دوراہے ایسے آتے ہیں جن میں سے ہر ایک پر پہنچ کر آدمی کا دل چاہتا ہے کہ دائیں یا بائیں مڑ جائے۔ اور اگر وہ نہ مڑے تب بھی آگے چلتے ہوئے بار بار اس کے دل میں ایک کھٹک محسوس ہوتی ہے کہ وہ ان میں سے کسی موڑ پر کیوں نہ مڑ گیا،بلکہ بسا اوقات یہاں تک جی چاہنے لگتا ہے کہ پلٹے اور انھی میں سے کسی موڑ کی طرف مڑ جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا اپنے ذہن میں اپنا سفر آغاز سے شروع کریں اور ان میں ہر ایک موڑ کی کشش محسوس کرکے ذرا اس کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ اُدھر کیا ہے اور کیا چیز اس کی طرف مائل کرتی ہے۔
ایک موڑ آتا ہے جہاں آدمی کے دل میں بار بار یہ خیال چٹکیاں لیتا ہے کہ اس کام کے لیے بہرحال تزکیۂ نفس ضروری ہے، اور تزکیۂ نفس کے وہ طریقے جو مکے اور مدینے میں اختیار کیے گئے تھے،کچھ واضح اور منضبط نہیں ہیں ،اور بعد کے ادوار میں جن بزرگوں نے ان طریقوں کو منضبط کیا، وہ صوفیۂ کرام ہیں ،اور ظاہر ہے کہ وہ سب بزرگان دین ہی ہیں ،لہٰذا اس کام کے لیے جو تزکیہ مطلوب ہے،اس کو حاصل کرنے کے معروف طریقوں میں سے کسی کو اختیار کرنا ناگزیر ہے۔نئے طرز کے لوگوں میں تو شاید کم ہوں گے، مگر مذہبی خانوادوں میں جن لوگوں نے آنکھیں کھولی ہیں ،ان سب کو اس موڑ کی کشش کم وبیش متأثر کرتی ہے۔میں ان تمام لوگوں سے جو اس کشش کو محسوس کرتے ہیں ،عرض کرتا ہوں کہ براہ کرم اس مقام پر ٹھیر کر خوب اچھی طرح غور وتحقیق کریں اور ذرا بے لاگ طریقے سے کریں ۔کیا واقعی کہیں صوفیانہ لٹریچر میں اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ اقامت دین اپنے وسیع وجامع تصور کے ساتھ ان بزرگوں کے پیش نظر تھی جن سے یہ صوفیانہ طریقے ما ٔثور ہیں ؟ کیا کہیں اس بات کا پتا نشان ملتا ہے کہ اسی مقصد کے لیے کارکن تیار کرنے کی غرض سے انھوں نے ان طریقوں کو اختیارکیا تھا؟کیا ان طریقوں سے تیارکیے ہوئے آدمیوں نے کبھی یہ کام کیا ہے؟اور کیا ہے تو یہ طریقے اس کام میں مفید ثابت ہوئے ہیں ؟
پھر قطع نظر اس سے کہ صدر اوّل کا طریقۂ تزکیۂ نفس منضبط ہے یا نہیں ،ہمیں قرآن اور سیرت محمدی علیٰ صاحبہ الصلاۃ و السلام میں اس کے جو اُصول او ر عملی جزئیات ملتے ہیں ،ان کا مقابلہ بعد کے صوفیانہ طریقوں سے کرکے آپ خود دیکھیں ،کیا ان دونوں میں نمایاں فرق نہیں پایا جاتا؟اس بحث میں نہ پڑیے کہ صوفیانہ طریقوں میں جو مختلف چیزیں پائی جاتی ہیں ،وہ مباحات کے قبیل سے ہیں یا محظورات کے قبیل سے۔ بحث صرف یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اخلاقی وروحانی علاج کے لیے جو نسخہ تجویزکیا گیا تھا،آیا صوفیہ نے اسی نسخے کو جوں کا توں استعمال کیا؟یا اس نسخے کے بعض اجزا کو کم، بعض اجزا کو زیادہ،اور بعض نئے اجزا کا اس میں اضافہ کردیا؟پہلی صورت کا تو شاید آج تصوّف کا کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی دعویٰ نہیں کرسکتا۔لامحالہ دوسری صورت ہی ماننی پڑے گی، اور وہی واقعتاً موجود بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اجزا کی مقدار وں میں کمی بیشی اور نئے اجزا کے اضافے سے نسخے کا مزاج بدلا ہے یا نہیں ؟ اگر بدل گیا ہے تو یہ اس مقصد کے لیے کیسے مفید ہوسکتاہے جس کے لیے حکیم مطلق اور اس کے بلاواسطہ شاگردؐ نے اپنا نسخہ مرتب کیا تھا؟اور کوئی کہتا ہے کہ ان مختلف ترمیمات اور اضافوں کے باوجود نسخے کا مزاج نہیں بدلا ہے، تو میں عرض کروں گا کہ تاریخ حکمت میں یہ بالکل ہی ایک نرالا واقعہ ہے (بلکہ شاید خرق عادت ہے) کہ اجزاے نسخہ میں مقادیر کی کمی وبیشی اور مختلف نئے اضافوں کے باوجود نسخے کا مزاج جوں کا توں رہ گیا!
میں توقع رکھتا ہوں کہ اگرکوئی شخص حقیقت میں بے جا عقیدتوں اور موروثی تعصبات کو دخل نہ دے گا اور ٹھنڈے دل سے بے لاگ تحقیق کرے گا تو اس معاملے میں پورا اطمینا ن ہوجائے گا کہ اقامت دین کے لیے ہمیں اسی طریقۂ تزکیہ پر اعتماد کرناہوگا جو قرآن اور سیرت رسول ﷺ میں ملتا ہے۔وہ اگر منضبط نہیں ہے تو اب اسے منضبط کرنا چاہیے۔
اس موڑ کو جو شخص پورے اطمینان کے ساتھ چھوڑ کر آگے بڑھتا ہے،اسے ذرا آگے چل کر ایک اور مقام پر حیرانی پیش آتی ہے۔سیرت نگاروں نے عہد صحابہؓ کی شخصیتوں کے جو مرقعے کھینچے ہیں ،وہ اس کی نگاہ میں گھومنے لگتے ہیں اور یہ دیکھ کر اس کادل پھر بیٹھنے لگتا ہے کہ ان کتابی مرقعوں سے ملتی جلتی شخصیتیں تو کہیں نظر نہیں آتیں ،پھر بھلا یہ کام کیسے ہوگا؟ اس مقام پر آدمی ہر طرف نظر دوڑاتا ہے کہ کہاں کوئی راستہ ملتا ہے جدھر جاکر میں اپنی مطلوب شخصیتیں پاسکوں ۔ اور بساا وقات شیطان یہاں پھر اس کو مشور ہ دیتا ہے کہ بس اسی جگہ سے پیچھے مڑجائو،یا مایوس ہوکر یہیں بیٹھ رہو۔ اس مرحلے پر بھی ٹھیر کر آدمی کو اچھی طرح غور کرنا چاہیے اور ٹھنڈے دل سے تحقیق کرکے ایک راے قائم کرنی چاہیے۔میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہاں جو کچھ بھی حیرانی وپریشانی آدمی کو لاحق ہوتی ہے، دو حقیقتوں سے غفلت کی بنا پر ہوتی ہے۔وہ دو حقیقتیں اگر اس کی سمجھ میں آجائیں تو قلب مطمئن ہوجاتا ہے اور آگے کا راستہ صاف نظر آنے لگتا ہے۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ جن شخصیتوں کے نمونے وہ تلاش کررہا ہے،وہ شخصیتیں نہ ایک دن میں بنی تھیں ،نہ آپ ہی آپ بن گئی تھیں ۔وہ بنانے سے بنی تھیں ،سال ہا سال میں بنی تھیں ، اور اگر آپ بے لاگ تحقیق سے کام لیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ گوشہ ہاے عزلت میں نہیں بنی تھیں بلکہ قرآن وسنت کی ہدایت کے مطابق اقامت دین کی جدوجہد میں لگ جانے اور جاہلیت کے خلاف کش مکش کرنے سے ہی بتدریج بن سنور کر وہ اس مرتبے پر پہنچی تھیں جسے آپ سیرت کی کتابوں میں دیکھ دیکھ کر آج عش عش کررہے ہیں ۔ا ب کوئی وجہ نہیں کہ شخصیت سازی کے اس طریقے کی پیروی کرنے سے وہی نتائج حاصل نہ ہوں ۔اس درجے کے نتائج نہ سہی، اس طرز اور اس نوعیت کے نتائج یقیناً حاصل ہونے ہی چاہییں ،بشرطیکہ صبر سے کام لے کر اسی طریقے کی پیروی کی جائے او رحکمت وتفقہ کے ساتھ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر کی جائے۔
دوسری حقیقت جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے یہ ہے کہ کتابی شخصیتیں واقعی شخصیتوں سے اچھی خاصی مختلف ہوتی ہیں ۔ایک گزرے ہوئے زمانے کے جو نقشے صفحۂ قرطاس پر کھینچے جاتے ہیں ،گوشت پوست کی دنیا میں بعینہٖ وہ نقشے کبھی پیدا نہیں کیے جاسکتے۔ لہٰذا جس شخص کو خیالی دنیا میں نہ رہنا ہو،بلکہ واقعی دنیامیں کچھ کرنا ہو،اسے اس خیالِ خام میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ گوشت پوست کے انسان کبھی بشری کمزوریوں سے بالکل منزہ اور تمام مثالی کمالات کا مرقع بن سکیں گے۔ آپ حد کمال کو نگاہوں سے اوجھل تو نہ ہونے دیں ، اور اس تک خود پہنچنے اور دوسروں کو پہنچانے کی کوشش بھی جاری رکھیں ،مگر جب کہ عملاً خدا کی راہ میں کام کرنا اور ہزارہا آدمیوں سے کام لینا ہو تو قرآن وسنت کے مطابق دین کے تقاضوں اورمطالبات کی حد اوسط آپ کو نگاہ میں رکھنی پڑے گی جس پر آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا قائم ہوجانا راہ خدا میں کام کرنے کے لیے کافی ہو اور جس سے نیچے گر جانا قابل برداشت نہ ہو۔ یہ حد اوسط خود ساختہ نہ ہونی چاہیے۔اس کا ماخذ خدا کی کتاب اور اس کے رسول ؐ کی سنت ہی ہونی چاہیے۔ لیکن بہرحال اس حد کو سمجھنا اور نگا ہ میں رکھنا ضروری ہے۔اس کے بغیر کوئی عملی کام آدمی نہیں کرسکتا۔ صدر اوّل میں جن لوگوں سے خدا کا کام لیا گیا تھا،وہ سب بھی نہ یکساں تھے اور نہ ان میں سے کوئی بشری کمزوریوں سے مبرا تھا۔ آج بھی جن لوگوں کے ہاتھوں یہ کام ہوگا،وہ ہرطرح کی کمزوریوں سے پاک نہ ہوں گے۔ یہ خوبی نظام جماعت میں ہونی چاہیے کہ وہ مجموعی طورپر ایک صالح اور حکیمانہ نظام ہو اور اس کے اندر یہ استعداد بھی موجود ہوکہ افراد اس میں شامل ہوکر دین حق کی زیادہ سے زیادہ خدمت انجام دیں اور ان کی کمزوریاں بروے کار آنے کے کم سے کم مواقع پائیں ۔
ان سب الجھنوں سے بچ نکلنے کے بعد پھر بھی آدمی کے دل میں یہ خلجان باقی رہ جاتا ہے کہ اپنے جن رفقا کے ساتھ وہ اقامت دین کے لیے کام کررہا ہے وہ معیار مطلوب سے بہت نیچے ہیں اور ان کے اندر بہت سے پہلوئوں میں ابھی بہت خامیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس خلجان سے میں نے اپنے کسی رفیق کو بھی خالی نہیں پایا ہے اور میں خود بھی اس سے خالی نہیں ہوں ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر یہ خلجان ہمیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی خامیاں دور کرنے پر اُکساتا ہے اور ان صحیح ذرائع ووسائل کی تلاش اور ان کے استعمال پر آمادہ کرتا ہے جن سے یہ خامیاں دُور ہوں ، تو مبارک ہے یہ خلجان۔ اسے مٹنا نہیں بلکہ بڑھنا چاہیے۔ کیوں کہ ہماری ساری اخلاقی وروحانی ترقی کا انحصار اسی خلجان کی پیداکی ہوئی خلش پر ہے۔ جس رو زیہ مٹا اور ہم اپنی جگہ مطمئن ہوگئے کہ جو کچھ ہمیں بننا چاہیے تھاہم بن چکے،اسی روز ہماری ترقی بند ہوجائے گی اور ہمارا تنزل شروع ہوجائے گا۔لیکن اگر یہ خلجان ہمیں مایوسی اور فرار پر آمادہ کرتا ہوتو یہ خلجان نہیں وسوسۂ شیطان ہے۔جب بھی اس کی کھٹک محسوس ہو، لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیے اور اپنے کام میں لگ جایئے۔ اگر آپ واقعی خدا کا کام کرنے اُٹھے ہیں تو خوب سمجھ لیجیے کہ ایسے وساوس سے اپنے دل کو فارغ کیے بغیر آپ کچھ نہ کرسکیں گے۔اس وقت شیطان کے لیے اس سے زیادہ مرغوب کوئی کام نہیں ہے کہ آپ کے سامنے جماعتِ اسلامی کی ہر خوبی کو بے قدر اور بے وزن کرکے پیش کرے، ا ور اس کی یا اس کے افراد کی ہر کمزور ی کو بڑھا چڑھاکر دکھائے تاکہ آپ کسی نہ کسی طرح دل چھوڑ بیٹھیں ۔ (ترجمان القرآن، نومبر۱۹۵۱ء)