جواب
اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سدِ راہ ہیں ،ان کا اگر تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ انھیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبے نے پیدا کیا ہے۔مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلط ہوئیں تو انھوں نے ہمارے قانون کو ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ہمارے نظامِ تعلیم کو معطل کرکے اپنا نظامِ تعلیم رائج کیا۔تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے ان سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیدا وار تھے اور ہر ملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کردی جو ان کے قائم کردہ نظام تعلیم سے فارغ ہوکر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طور طریقے رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی رفتہ رفتہ ان لوگوں کے لیے مخصو ص ہوگیا جنھوں نے مغربی تہذیب وتعلیم کو اختیار کیا تھا۔اس طریقے سے انھوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کردی جو اسلام اور اس کی تاریخ،اس کی تعلیمات اور اس کی روایات، ہر چیز سے عملی طور پر بھی بے گانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بے گانہ۔یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے اور یہی اس غلط فہمی کا موجب بھی ہے کہ اسلام اس وقت قابل عمل نہیں ہے۔جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیر اسلامی طریقے پر دی گئی ہو،وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابل عمل نہیں ہے، کیوں کہ نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں ۔ جس نظام زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں ، اسی کو وہ قابل عمل تصور کرسکتے ہیں ۔
اب لامحالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں ۔ یا تو ہم من حیث القوم کافر ہوجانے پر تیار ہوجائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں ، یا پھر خلوص اور ایمان داری کے ساتھ(منافقانہ طریق سے نہیں ) اپنے موجودہ نظام تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقے سے تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے قابل لوگ تیار کرسکیں ۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی کمیشن نے اس مسئلے کی طرف کوئی اچٹتی ہوئی توجہ بھی نہیں کی۔ یہ مسئلہ بڑی سنجیدگی سے غور کے قابل ہے اور جب تک ہم اسے حل نہیں کرلیں گے، اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ کبھی ہموار نہ کرسکیں گے۔
ابنِ خلدون کے کسی نظریے کی طرف رجوع کرنے سے اس مسئلے کے حل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی،کیوں کہ اس مسئلے کی جو نوعیت اب پیدا ہوئی ہے،وہ ابنِ خلدون کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔مسئلے کی حقیقی نوعیت یہ ہے کہ مغربی استعمار رخصت ہوتے ہوئے ہمارے ملکوں میں اس نسل کو حکمراں بنا کر چھوڑ گیا ہے جس کو اس نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب کا دودھ پلا پلا کر اس طرح تیار کیا تھا کہ وہ جسمانی حیثیت سے تو ہماری قوم کا حصہ ہے لیکن علمی اور ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے انگریزوں ، فرانسیسیوں یا ولندیزیوں کا پورا جانشین ہے۔اس طبقے کی حکومت جو مشکلات پیدا کرتی ہے،ان کو رفع کرنے کا معاملہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے حل کرنا ابن خلدون کے نظریات کا کام نہیں ہے۔اس کے لیے بڑے سنجیدہ غور وفکر کی اور حالات کو سمجھ کر اصلاح کے لیے نئی راہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔ (ترجمان القرآن ،اکتوبر ۱۹۶۱ء)