آیت: وَيَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ( ابراہیم۱۴ : ۲۵)
’’ یہ مثالیں اللّٰہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں ۔‘‘
میں لفظ لَعَلَّ آیا ہے جو شک کا کلمہ ہے، حالاں کہ اللّٰہ تعالیٰ کوہر چیز کا قطعی علم ہے۔ پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی؟
جواب
جن امور میں اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار تفویض کیا ہے، ان میں اﷲ تعالیٰ انسان کی اصلاح کے لیے جو تدبیر اختیار فرماتا ہے،اس سے نتیجۂ مطلوب کا برآمد ہونا اس پر موقوف ہے کہ انسان اپنے اختیار کو صحیح استعمال کرے۔ اور چوں کہ اﷲ تعالیٰ اسے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہتا اس لیے اس نتیجہ ٔ مطلوب کے برآمد کرنے کا ذکر لَعَلَّ کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی اس نتیجے کا برآمد ہونا یقینی نہیں ہے، بلکہ اگر انسان صحیح طرز فکر اختیار کرلے تب ہی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ نتیجہ رونما ہو۔
(ترجمان القرآن ، مارچ ۱۹۵۷ء)