ایک صاحب نے مسئلہ تقدیر پرکچھ سوالات کیے۔ چوں کہ مجھ میں اتنی علمی استعداد نہیں ہے کہ میں انھیں تشفی بخش جواب دے سکتا۔ اس لیے میں نے انھیں ایک کتاب پڑھنے کو دی۔ لیکن ان کو تشفی نہیں ہوئی۔ ایک بار انھوں نے کہا کہ جب ہر چیز اللہ کی مرضی سے ہی ہوتی ہے تو ثواب کاکام بھی ایک انسان اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا اور نہ گناہ ہی اس کی مشیت کے بغیر کرسکتا ہے تو پھر جزا وسزا بے معنی چیز ہوجاتی ہے۔ خدا سوال کرے گا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو میں جواب دوں گاکہ یہی تیری مرضی تھی۔ ایک بار اشارۃً انھوں نے کہا تھا کہ ایک ہندونے ان کے ذہن میں یہ سوال پیداکیا ہے۔ مہربانی کرکے آپ اس کا جواب عنایت کریں۔
جواب
مسلمانوں کو برائیوں پرابھارنے اور خود اپنی بدعقیدگی اور بدعملی کا جواز مہیا کرنے کے لیے ہمیشہ تقدیر کے مسئلے کو بہانہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے اگر آج کوئی ہندویاکمیونسٹ اس مسئلے کو پیش کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانا چاہتا ہے تو یہ تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ تقدیر کے مسئلے کو سمجھانے کے لیے بے شک متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن فی الواقع اس مسئلے کا اصل جواب اللہ تعالیٰ پرکامل اور زندہ ایمان میں پوشیدہ ہے۔ علمی اور فلسفیانہ مباحث کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہوتے۔ جب تک اللہ کی ذات وصفات پرکامل یقین نہ ہو ذہن کی گرہ نہیں کھلتی۔ جب تک کسی شخص کو اس بات پر یقین کامل حاصل نہ ہوکہ اللہ حکیم، علیم، عادل، قادر اور رحمٰن ورحیم ہے وہ کسی فلسفیانہ بحث سے کس طرح مطمئن ہوسکتا ہے؟ میں نے جب بھی اس مسئلے پر غور کیا ہے مجھے اسی ایمان ویقین نے تشفی بخشی ہے۔ تقدیر کے بارے میں اگرکسی مسلمان کے دل میں شک ڈال دیاگیا ہوتو اس کے سامنے تین باتیں وضاحت سے پیش کردیجیے اور پھر دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اطمینان قلب عطاکرے۔
۱-(الف) اللہ حکیم ہے۔ اس نے انسانوں کو یوں ہی عبث،بے کاراوربلاحکمت پیدا نہیں کیا۔ اس کی شان سے یہ بعید ہے کہ اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی ہو اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار مختلف انداز سے بتائی اورسمجھائی ہے۔ سورۂ مومنون کے اخیرمیں کہاگیا ہے
’’کیا تم سمجھتے ہوکہ ہم نے تمہیں عبث (مہمل کسی حکمت کے بغیر) پیداکیا ہے اور تم کو ہماری طرف پلٹ کرآنا نہیں ہے؟اللہ (بے حکمت کام کرنے سے) بلند ہے، وہ حقیقی بادشاہ ہے، اس کے سواکوئی معبود نہیں اور وہ شان دار عرش کا مالک ہے۔‘‘ (آیات ۱۱۵۔۱۱۶)
(ب) اللہ علیم ہے۔ اس کے علم کے دائرے سے کوئی شے باہر نہیں ہے۔ اسی نے سب کو پیدا کیا ہے اور وہ اپنی مخلوق سے پوری طرح باخبر ہے۔وہ ہر مخلوق کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کیا کچھ کرے گی اور کس انجام کو پہنچے گی؟ عقل بھی کہتی ہے کہ جس کا علم ناقص ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا او رقرآن میں بھی بیسیوں مقامات پر اس نے واضح کیا ہے کہ اس کے علم سے ایک ذرے کے برابر بھی کائنا ت کی کوئی چیز غائب نہیں ہے، اس کا علم سب کو گھیر ے ہوئے ہے۔
(ج) اللہ عادل ہے۔اس کے عدل وانصاف کا حال یہ ہے کہ ظلم کاشائبہ بھی وہاں نہیں پایا جاتا اور نہ پایا جاسکتا ہے۔ظلم تو ایسی صفت ہے جو انسان کو بھی اس کے مرتبہ سے گرادیتی ہے۔ جو خدا ہووہ ظالم کس طرح ہوسکتا ہے؟ظلم اور خدائی میں تضاد کی نسبت ہے۔جو خداہے وہ ظالم نہیں ہوسکتا اورجو ظالم ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔اپنے عدل وانصاف کو بھی اس نے قرآن میں اچھی طرح واضح کردیا ہے۔
(د) اللہ قادر مطلق ہے۔اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ وہ جو کچھ چاہے کرسکتاہے اس کو روکنے اورٹوکنے والا کوئی نہیں۔ اس کائنات کا کوئی ایک ذرہ اس کی مشیت کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ اور نہ کسی کی یہ مجال ہے کہ اس سے کسی چیز کی بازپرس کرسکے۔
(ہ) اللہ رحمٰن ورحیم ہے۔ اس کی رحمت اتنی عظیم ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو اس کا ذرہ عطاکیا ہے۔ اسی کے اثر سے ماں باپ اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں اور اولاداپنے ماں باپ سے محبت کرتی ہے۔ یہ ذرہ نہ ملاہوتا تو کوئی کسی پررحم نہ کرتا۔ لیکن اس کی رحمت اس کے عدل وانصاف اوراس کی حکمت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لائق سزا مجرم ونافرمان پررحم کرے اور لائق جزا فرماں بردار کو سزا دے ڈالے۔ اس نے اپنی سزا اورجزاکا قانون بھی بتادیاہے۔
۲- دوسری بات یہ واضح کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیاردے کر اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجاہے کہ وہ اللہ کے احکام کی پیروی اوراس کی منع کی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرتاہے یا نہیں۔ اللہ نے اپنی مرضی و نامرضی کو پوری طرح واضح کردیا ہے اور آخرت میں وہ اپنے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے فرمائے گا۔ بلاشبہ اللہ کو اس کا علم ہے کہ کون شخص اچھے عمل کرے گا اور کون برے عمل کرے گا۔ لیکن کسی کی نیک عملی یا بدعملی کا سبب اللہ کا یہ علم نہیں ہے، بلکہ انسان کا اپنا وہ اختیار ہے جو وہ اچھے یا برے عمل کرنے میں استعمال کرتاہے۔
۳-تیسری بات یہ بتائیے کہ مشیت اورمرضی میں فرق ہے۔ مشیت کا تعلق اللہ کی خالقیت، قدرت وحکومت اوراس کے اذن سے ہے اور مرضی کا تعلق اس کی پسند اور خوشی سے۔چوں کہ وہی اس کائنات کاخالق، مالک اور حاکم ہے اس لیے اس کے اذن کے بغیر یہاں کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ لیکن جتنی چیزیں اس نے پیدا کی ہیں ان کی دوقسمیں ہیں ایک قسم کی چیزیں وہ ہیں جنہیں وہ پسند کرتاہے، ان کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اوراس کی تعمیل سے وہ خو ش ہوتاہے۔ اور دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جنہیں وہ ناپسند کرتا ہے، ان سے اس نے منع کیا ہے اور ان چیزوں کے ارتکاب سے وہ ناخوش ہوتا ہے۔ قرآن میں ایک طرف یہ کہا گیا ہے کہ اللہ ہی ہرچیز کا خالق ہے اور دوسری طرف یہ ارشاد ہواہے کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔کفر اس کی مرضی نہیں ہے۔وہ اگر ایمان اور کفر دونوں چیزیں پیدا نہیں کرتاتو انسان کی آزمائش کیاہوتی۔ اس نے دونوں چیزیں پیدا کیں۔ اور بتادیا کہ میں ایمان کو پسند کرتاہوں اور کفر کو ناپسند کرتاہوں۔ تمہاری آزمائش اس میں ہے کہ تم کیا اختیار کرتے ہو؟ جزا اور سزا کا تعلق اسی اختیار سے ہے۔ اس لیے قیامت میں کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کفر اس لیے کیا۔یہ تیری مرضی تھی۔ یہ جملہ صحیح ہے کہ ’’یہاں جو کچھ ہوتاہے اللہ کی مشیت سے ہوتاہے۔‘‘ لیکن یہ جملہ صحیح نہیں ہے کہ ’’یہاں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتاہے۔‘‘ اگر کوئی شخص غلط فہمی کی وجہ سے مشیت اور مرضی کو ایک سمجھتا ہے تو اس کی غلط فہمی دور کیجیے۔
عربی میں مشیت اورمرضی دوعلیحدہ لفظ ہیں اور دونوں کا مفہوم بھی الگ ہے۔ البتہ اردو زبان میں ’چاہنا‘ ایک مشترک لفظ ہے۔ یہ کبھی مشیت کے معنی میں استعمال ہوتاہے اور کبھی مرضی کے معنی میں۔ جو اللہ چاہتاہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتانہیں ہوتا۔‘‘ اس جملے میں ’چاہنا‘ مشیت کے معنی میں ہے اور’ ’اللہ چاہتا ہےکہ اس کے بندے اسی کی بندگی کریں۔ ‘‘ اس جملے میں یہ لفظ مرضی کے معنی میں ہے۔ استعمال کے اس فرق کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے۔ (اپریل ۱۹۶۸ء،ج۴۰،ش۴)