ایک دن جب کہ میں دعوت اسلامی کے سلسلے میں اپنے خیالات ظاہر کررہاتھا کہ ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا جب کوئی چیز بغیر کسی خالق اور موجد کے وجود میں نہیں آتی تویہ بتائیے کہ خدا کا وجود کہاں سے آیا؟ خدا کا خالق کون ہے؟ میں نے یہ سوال سن کر ہاں ہوں کہہ کر خاموشی اختیارکرلی۔ بحمدللہ مجھے خود اس بارے میں کوئی شبہ نہیں۔ میرے نزدیک سورۂ اخلاص اس سوال کا جواب ہے مگر سوال کرنے والے کو کیا جواب دیاجائے؟ کئی دن کی بے چینی کے بعد میں نے آپ سے خواہش ظاہر کی ہے۔ آخر ہم لوگ اس سوال کا کیا جواب دیں ؟
جواب
آپ سے جو سوال کیا گیا ہے اس نے سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پرایک اور شہادت پیش کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک پیش آنے والے بہت سے واقعات کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جس کا تعلق سائل کے سوال سے ہے۔ اس سے متعلق چند حدیثوں کاترجمہ یہاں درج کرتاہوں
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ حضورؐ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے کہا کہ اللہ فرماتا ہے ہماری امت کے لوگ کہتے رہیں گے کہ اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہیں گے اللہ کو کس نے پیدا کیا؟
اسی مفہوم کی کئی حدیثیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔ ان میں اس وسوسے کا علاج بھی مذکورہے۔ ایک حدیث کاترجمہ یہ ہے
’’لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا۔تمام مخلوقات کو اللہ نے پیداکیا ہے تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟جو شخص اس وسوسے میں مبتلا ہو اسے (تجدیدایمان کرتے ہوئے) کہنا چاہیے اٰمَنْتُ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ (میں اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لایا)۔‘‘
بعض حدیثوں میں اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ایسا وسوسہ ہوتو شیطان کے شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اور بعض میں ہے کہ سورۂ اخلاص میں اس کا علاج ہے۔ ان حدیثوں سے معلوم ہواکہ یہ سوا ل شیطانی وسوسہ اندازی کا اثر ہے۔ انسان کا وہ ازلی دشمن، اس طرح بھی ایمان کے خزانے پرڈاکہ ڈالنا چاہتاہے۔ اس لیے اس کا علاج یہی ہے کہ مومن اپنے ایمان کو تازہ کرلے اور شیطان رجیم کے شر سے اللہ کی پناہ ڈھونڈھے۔ نظروں سے غائب دشمن سے وہی بچاسکتا ہے۔
اگرسائل مسلمان ہو،جیسا کہ آپ کے انداز کلام سے معلوم ہوتا ہے تو انھیں یہ حدیثیں سنادیجیے۔ ایک ایسے مسلمان کے لیے جو صدق دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہویہ جان لینا کافی ہے کہ اس معاملے میں اللہ نے یہ فرمایا ہے اوراس کے رسولؐ نے یہ فرمایا ہے۔ یہ جانتے ہی وہ سرتسلیم خم کردیتا ہے اوراپنے عقیدہ وعمل کو درست کرلیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جو حل بتایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ انسان اس سوال پرغوروفکر کرنا چھوڑدے اس لیے کہ اس پر غوروفکر کے نتیجے میں وہ حیرانی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ چناں چہ بعض حدیثوں میں صراحت کے ساتھ کہاگیا ہے کہ اگر کسی کو اس طرح وسوسہ ستائے تو وہ استعاذہ کرے اور اس پر غوروفکر کرنے سے رک جائے۔ آپ سائل پر واضح کیجیے کہ اللہ نے انسان کو جو عقل دی ہے وہ بے حدونہایت نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مقررہ حد ہے جس سے آگے وہ خود نہیں بڑھ سکتی۔اگر انسان کی عقل خود ہی تمام مسائل کو حل کرسکتی تو پھر نبوت ورسالت اور وحی الٰہی کی ضرورت ہی کیاہوتی؟ میرے نزدیک اصولی طورپر سوال کا جواب یہی ہے لیکن مزید اطمینان کے لیے اس مسئلے کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات تو آپ سے سوا ل کرنے والے صاحب تسلیم کرتے ہوں گے کہ وہ خود موجود ہیں اور یہ لمبی چوڑی دنیا بھی ان کی نگاہوں کے سامنے موجود ہے۔ اب اگرپیدا کرنے والے کا سوال کسی حدپر جاکر نہ رکے تو اس کے معنی ہوں گے کہ ابھی انسان اور دنیا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ کیوں کہ جب تک کسی آخری پیدا کرنے والے کا وجود طے نہ ہوجائے یہ دنیا موجود کیسے ہوجائے گی؟ میں اس سلسلے میں خود انسان کومثال میں پیش کرتاہوں۔
سب جانتے ہیں کہ ہزاروں برس سے انسان ماں اور باپ کے ملاپ سے پیدا ہورہے ہیں۔ فرض کیجیے، میں زید سے پوچھتا ہوں کہ اس کے ماں باپ کون ہیں اور اس سوال کو آگے بڑھاتاہوا آدم علیہ السلام تک پہنچتا ہوں اور سوال کرتاہوں کہ بتائو حضرت آدم کے باپ اور ماں کون تھے؟ کیا دنیا میں کوئی شخص اس کا قائل ہے کہ آدم کے بھی کوئی باپ اور ماں ہے؟ اگر باپ اور ماں کے سوال کو آدم پرختم نہ کیاجائے تو کسی آدمی کا وجود ہی ممکن نہیں۔ ہم آدم تک پہنچ کرباپ اور ماں کے سلسلے کو ختم کرنے پرمجبورہیں۔ اسی طرح ہم عقلاً مجبور ہیں کہ اس پوری کائنات کی تخلیق کے سلسلے کو ایک ایسے وجود پرختم کریں جس کا خالق کوئی نہ ہو۔وہ خود سب کا خالق کیسے ہے اور کیوں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہماری عقل کی حد سے باہر ہے اس لیے کہ اس کیسے اورکیوں کو جان لینے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اللہ کی کنہ ذات کو جان لیں، حالاں کہ اس کی ذات اس سے بلند ہے کہ ہماری عقل میں سماسکے۔ اسی مضمون کو اکبر الٰہ آبادی نے ایک مصرع میں یوں کہاہے۔
جوسمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کرہوا
(نومبر۱۹۶۲ء،ج۲۹،ش۵)