سوال میں اس جواب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو ہفتہ وار ’آرگنائزر‘ مورخہ ۶؍اگست ۱۹۶۲ء میں دیا گیا ہے۔ پونا کے کسی مسٹر ایچ۔ جی۔ میڈ (Mr.H.G.MADE) نے درج ذیل سوال کیا ہے
کیا ’اوم ‘(AUM)کی کوئی تاریخی اہمیت بھی ہے؟ اس سوال کا جواب ’آرگنائزر‘ نے یہ دیا ہے
’’اس کی روحانی اہمیت نے تاریخ بنائی ہے، اس لیے کہ یہ تمام تاریخ کا خلاصہ ہے۔ بلکہ اگر آپ ہندوستان کے باہر کی تاریخ بھی دیکھنا چاہیں تو براہ کرم قرآن کے صفحات الٹیے۔ آپ اسے بالکل ابتدا ہی میں پائیں گے۔ اور وہ ہے الم (AUM) جواوم کا محرف ہے۔ مسلم علماء ومشائخ اس کی تشریح پرقادر نہیں ہیں، بلکہ وہ تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ مقدس اور راز کی چیز ہے، جس میں وہ بڑی حد تک صحیح ہیں۔ ‘‘ آپ خیال فرماسکتے ہیں کہ ایک مسلمان اگر اسے پڑھے گاتو کیا سوچے گا۔ اسے اگر اپنے لفظوں میں ادا کیاجائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ بہت بڑی ذلت ہے ان لوگوں کے لیے جو غالباً اپنے مذہب کی بھی تفسیر نہ کرسکے۔ حالاں کہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ ’آرگنائزر‘ میں جواب دینے والے کے یہ خیالات تعصب پرمبنی ہیں، جسے جہالت کی پیداوار کہنا صحیح ہوگا۔ لیکن جیسا کہ انھوں نے کہا ہے کہ مسلم علماء ومشائخ اس کی تفسیر میں ناکام رہے۔ میں آپ سے درخواست کرتاہوں کہ آپ اس کا معقول ومفصل جواب تحریر فرمائیں۔
جواب
یہ آپ نے ٹھیک سمجھا ہے کہ یہ خیالات جاہلانہ تعصب پرمبنی ہیں۔ جواب دینے والے کی سب سے پہلی نادانی یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو تاریخ کی ایک ایسی کتاب سمجھتا ہے جسے کسی انسان نے تصنیف کیا ہو۔ حالاں کہ قرآن کوئی تاریخ کی کتاب نہیں، ایک کتاب ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراتاری ہے۔ اس خیال سے کہ کسی ناواقف مسلمان کے ذہن میں الجھن پیدا نہ ہو، میں ان بے اصل خیالات پرروشنی ڈال رہاہوں۔
’آرگنائزر‘ کے جواب کا حاصل یہ ہے
۱- الم اوم کا محرف ہے۔
۲- علماء ومشائخ اس کی تشریح نہ کرسکے۔
۳- مسلم علماء کے لیے یہ بات انتہائی عیب اور ذلت کی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تفسیر بھی نہ کرسکے۔
میں اسی ترتیب سے چند باتیں عرض کرتاہوں۔
۱-جواب دینے والے کو شاید یہ بات بھی معلوم نہیں کہ ’الم ‘ کوئی مرکب لفظ نہیں ہے، بلکہ تینوں حروف علیحدہ علیحدہ ہیں۔ الف الگ، لام الگ اور میم الگ۔ قرآن کے ایسے حروف کو اصطلاح میں حروفِ مقطعات کہتے ہیں۔ یعنی ایسے حروف جو علیحدہ علیحدہ ہیں اور ان سے مل کر کوئی لفظ نہیں بناہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’اوم‘ کے حروف بھی اسی طرح الگ الگ ہیں ا ور ان سے مل کر یہ کوئی مرکب لفظ (Word) نہیں بنا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ’اوم‘ ایک لفظ ہے محض حروف نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ ’الم ‘ اور ’اوم‘ میں کوئی مشابہت موجود نہیں ہے۔ اوم ایک لفظ (Word) ہے اور ’الم ‘ محض حروف تہجی (Alphabet) ہیں۔ یہاں تک کہ ان دونوں میں صوتی یعنی آواز کی مشابہت بھی نہیں ہے۔ اوم کو ہم ’اوم‘ بولتے ہیں اور ’الم ‘ کو الف، لام، میم بولتے ہیں۔ اب بتائیے کہ دونوں میں وہ کون سی مشابہت ومماثلت ہے، جس کی وجہ سے ’الم‘ کو اوم کا محرف کہاجائے۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک بے بنیاد اور احمقانہ دعویٰ ہے۔ کسی زبان کے حروف تہجی میں تحریف کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟ اگر کہنے والا قرآن کے کسی لفظ کو اوم کا محرف کہتا تو کم سے کم لفظ ہونے کی مشابہت توپائی جاتی۔عربی کے تین حروف تہجی کو اوم کا محرف کہنا تو بالکل بے تکی بات ہے۔
۲- جواب دینے والا یا تو خود نہیں جانتا یا اپنے پڑھنے والوں کو ناواقف رکھنا چاہتا ہے کہ ’الم ‘ جیسے حروف، صرف سورۂ بقرہ کی ابتدا میں نہیں ہیں بلکہ بہت سی سورتوں کی ابتدا میں اس طرح کے حروف مقطعات موجو د ہیں۔ کسی سورہ کی ابتدا میں المرہے، کہیں المص، کہیں کھیعص، کہیں طہ اور کہیں ق ہے۔ ایک حرف سے لے کر پانچ حروف تک مختلف سورتوں کی ابتدا میں استعمال کیے گئے ہیں۔
اب کوئی اس سے پوچھے کہ یہ تمام حروف ’اوم‘ کا محرف ہیں یا کچھ اور دوسرے سنسکرت الفاظ کے محرف ہیں ؟ مسلم علماء ’الم ‘ کی تشریح تو اس لیے نہ کرسکے کہ وہ اوم کا محرف ہے تو آخر وہ دوسرے حروف کی تشریح کیوں نہ کرسکے۔جواب دینے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ علماء ومشائخ کی ایک جماعت نے یہ جو لکھا ہے کہ ان حروف کی مراد اللہ جانتا ہے، ہم نہیں جانتے تو یہ صرف ’الم ‘ کےلیے نہیں لکھا ہے بلکہ ایسے تمام حروف کے لیے لکھا ہے جو سورتوں کی ابتدا میں ہیں اور جنہیں حروف مقطعات کہاجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ جن علماء نے ان حروف کی تشریح نہیں کی اس کی وہ بے بنیاد وجہ نہیں ہے جو آرگنائزر میں ظاہر کی گئی ہے۔ دوسری بات جواب دینے والے کو یہ معلوم ہونی چاہیے کہ بہت سے مسلم علماء ومشائخ نے ان حروف کی تشریح بھی کی ہے اور اپنے علم کی حدتک ان کی مراد واضح کی ہے۔
۳-’آرگنائزر‘ میں جواب لکھنے والا اس بات سے بھی ناواقف ہے کہ ان حروف سے کوئی مذہبی حکم نہیں نکلتا۔ کیوں کہ کسی زبان میں اس کے حروف تہجی سے کوئی خبر یا کوئی حکم نہیں نکلا کرتا، اس کے لیے مرکب الفاظ اور بامعنی جملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ لکھنا کہ ’’علماءو مشائخ کے لیے یہ بڑی ذلت کی بات ہے کہ وہ اپنے مذہب کی بھی تفسیر نہ کرسکے‘‘ انتہائی جہالت کی بات ہے۔ مسلمان علماءومشائخ نے اپنے مذہب کی بے مثال تشریح کی ہے۔ چند الگ الگ حروف کو کوئی جاہل ہی ’مذہب ‘ کہہ سکتا ہے۔
(اکتوبر ۱۹۹۲ء ج ۲۹،ش ۴)