الکحل آمیز دوائیں

,

۱- شراب کی جزوی آمیزش سے تیار کردہ دوائوں کا استعمال مریضوں کے لیے از روئے فتویٰ جائز ہے تو کیا اسی طرح آیورویدک دوائیں جو گئومتر (گائے کا پیشاب) ملاکر بنائی جاتی ہیں، امراض کے دفعیہ کے لیے مستعمل ہوسکتی ہیں ؟

۲- کیا ایسی متبادل اشیا کی موجودگی میں جن میں نہ تو شراب ہوتا ہے اور نہ گئومتر کی آمیزش ہوتی ہے، مذکورہ ادویات سے اجتناب ناگزیر نہیں ہے؟

جواب

شراب کی جزوی آمیزش سے تیارکردہ دوائوں سے غالباً آپ کی مراد الکحل آمیز دوائیں ہیں ۔ موجودہ دور کے سب سے ترقی یافتہ طریقہ علاج میں دوائیں الکحل میں حل کی جاتی ہیں ۔ اب اگر ان کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیاجاتا تولوگوں کی صحت اور زندگی کی حفاظت خطرے میں پڑجاتی ۔ اس مجبوری کی بناپر دوائوں کے استعمال کو جائز قراردیا گیا ہے۔ یہی مجبوری اگر ان دوائوں کے معاملہ میں بھی پیش آرہی ہوجو گائے کا پیشاب ملاکر بنائی جاتی ہیں تو میرے خیال میں انھیں استعمال کیاجاسکتا ہے۔ مثلاً آیورویدک کی کوئی دوا جوگائے کا پیشاب ملاکر بنائی گئی ہو، کسی خاص مرض میں بہت مؤثر ثابت ہوچکی ہواور بکثرت مریض اس سے صحت یاب ہورہے ہوں تو اس کے استعمال کو ناجائز قرار دے کر اس سے اجتناب کو ضروری قرار دینا میرے خیال میں صحیح نہ ہوگا۔

(۲) ایسی دوائوں کا استعمال قابل ترجیح ضرور ہے جن میں الکحل یاگائے کا پیشاب ملا ہوا نہ ہو لیکن موجودہ حالات میں کسی مریض کے لیے ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک اور آیورویدک دوائوں سے اجتناب کرنا ضروری قراردینا صحیح نہ ہوگا۔ البتہ اگر کوئی مسلمان بربنائے تقویٰ ایسی دوائوں کے استعمال سے اجتناب کرتا ہے تو اس کو اس کا اختیارحاصل ہے۔                  (جولائی ۱۹۷۴ءج۵۳ش۱)