امانتوں اورقرضوں پر زکاۃ

کیا بنکوں (banks) میں بقایا امانت،بنک یا کسی دوسری جگہ حفاظت میں رکھی ہوئی چیزیں ،لیے ہوئے قرضے،مرہونہ جائداد اور متنازعہ فیہ جائداد اور ایسی جائداد جو قابل ارجاعِ نالش ہو،پر بھی زکوٰة واجب ہے؟
جواب

بنکوں میں جو امانتیں رکھی ہوں وہ محل زکاۃ ہیں ۔دوسرے ادارے اگر رجسٹرڈ ہوں اور حکومت ان کے حساب کتاب کی پڑتال کرسکتی ہو،تو ان میں رکھی ہوئی امانتوں کا وہی حکم ہے جو بنک کی امانتوں کا ہے۔ اور اگر وہ رجسٹرڈ نہ ہوں ،نہ ان کے حساب کتاب کی پڑتال کرنا حکومت کے لیے ممکن ہو، تو ان میں رکھی ہوئی امانتیں اموالِ باطنہ کی تعریف میں آتی ہیں ،جن کی زکاۃ وصول کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔ان کے مالک خود ان کی زکاۃنکالنے کے ذمہ دار ہیں ۔
لیے ہوئے قرضے اگر ذاتی حوائج کے لیے لیے گئے ہوں اور خرچ ہوجائیں تو ان پر کوئی زکاۃ نہیں ۔اگر قرض لینے والا سال بھر تک ان کو رکھے اور وہ بقدر نصاب ہوں تو ان پر زکاۃ ہے۔ اور اگر ان کو تجارت میں لگا لیا جائے تو وہ قرض لینے والے کا تجارتی سرمایہ شمار ہوں گے اور اس کی تجارتی زکاۃ وصول کرتے وقت اُس کے ایسے قرضوں کو مستثنیٰ نہ کیا جائے گا۔
دیے ہوئے قرضے اگر بآسانی واپس مل سکتے ہوں تو ان پر زکاۃواجب ہے۔بعض فقہا کے نزدیک ان کی زکاۃ سال بہ سال ادا کرنی ہو گی۔یہ حضرت عثمانؓ،ابن عمرؓ، جابر بن عبداﷲؓ، ابراہیم نخعیؒ اور حسن بصریؒ کامسلک ہے۔ اور بعض کے نزدیک جب وہ قرضے وصول ہوں تو تمام گزشتہ سالوں کی زکاۃادا کرنی ہوگی۔یہ حضرت علیؓ،ابو ثورؒ، سفیان ثوریؒ اور حنفیہ کا قول ہے۔اور اگر ان قرضوں کی واپسی مشتبہ ہو تو اس بارے میں ہمارے نزدیک قول راجح یہ ہے کہ جب رقم واپس ملے،اُس وقت صرف ایک سال کی زکاۃنکالی جائے۔یہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ،حسنؒ، لیثؒ، اوزاعیؒ اور امام مالکؒ کا قول ہے اور اس میں بیت المال اور صاحب مال،دونوں کے مفاد کی منصفانہ رعایت پائی جاتی ہے۔({ FR 2212 })
مرہونہ جائدا د کی زکاۃ اُس شخص سے وصول کی جائے گی جس کے قبضے میں وہ ہو۔مثلاً مرہونہ زمین اگر مرتہن کے قبضے میں ہے تو اس کا عُشر اُس سے وصول کیا جائے گا۔
متنازع فیہ جائداد کی زکاۃ دوران نزاع میں اُس شخص سے لی جائے گی جس کے قبضے میں وہ ہو، اور فیصلہ ہونے کے بعد اُس کی زکاۃ کا ذمہ دار وہ ہوگا جس کے حق میں فیصلہ ہو۔
قابل ارجاع نالش جائداد کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا۔وہ بالفعل جس شخص کے قبضے میں ہو اور جب تک رہے،اُس کی زکاۃ اسی کے ذمے رہے گی۔کیوں کہ جو شخص کسی چیز سے فائدہ اُٹھاتا ہے،اُس کے واجبات بھی اسی کو ادا کرنے ہوں گے۔ (ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۵۰ء)