ستمبر ۱۹۸۵ء کے پہلے ہفتے میں میراقیام دہلی میں تھا۔وہاں تامل ناڈو سے آئے ہوئے ایک نوجوان نے مجھ سے کہاکہ سورۂ البقرہ کی آیت ۱۴۳ میں امت مسلمہ کی جس شہادت کا ذکر ہے اس کے بارے میں تامل ناڈو کے بعض علماء نے کہا کہ تمام قدیم مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ شہادت آخرت میں دینی ہوگی۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ امت مسلمہ کو شہادت دنیا میں بھی دینی ہوگی۔ دنیا میں شہادت دینے کی بات مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی ایجاد ہے۔ نوجوان نے کہا کہ میں اس کا جواب نہیں دے سکا۔ آپ مجھے بتائیے کہ کیا کسی قدیم مفسر نے دنیا میں شہادت دینے کی بات لکھی ہے؟
جواب
میں نے نوجوان کو مختصر جواب دےدیا تھا کہ ہاں لکھی ہے۔ اگر ایس۔آئی۔ او کے نوجوان اس حقیر کی کتاب ’امت مسلمہ کا نصب العین ‘ پڑھ چکے ہوتے تو وہ بعض علماء کو جواب دے سکتے تھے۔ میں نے اس کتاب میں سورۂ بقرہ آیت ۱۴۳ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ آیت یہ ہے
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ (البقرۃ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پرگواہ ہواور رسول تم پرگواہ ہو۔‘‘
میں نے اس آیت پربحث کرتے ہوئے کتاب کے صفحہ ۱۰۸پرتین سوالات قائم کیے ہیں۔ ان میں پہلا سوال یہ ہے امت مسلمہ کو یہ شہادت کہاں دینی ہوگی، دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں جگہ؟ اس سوال کا جواب میں نے امام رازیؒ کی تفسیر کبیر کو سامنے رکھ کردیا ہے۔میں نے لکھا ہے کہ دنیا میں شہادت دینے کا قول ماقبل امام رازیؒ سے نقل ہوتا چلاآرہاہے۔ یہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی ایجاد نہیں ہے۔امام رازیؒ نے خود جس بات کو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کو یہ شہادت دنیا میں بھی دینی ہوگی اور آخرت میں بھی۔ ان کے محاکمے کی عبارت میں نے اپنی کتاب میں نقل کردی ہے۔ یہاں میں کچھ مزید عبارتیں نقل کرتا ہوں۔ امام رازی کا طریقہ یہ ہے کہ آیا ت پرگفتگو کرنے کے لیے چند مسائل پہلے متعین کرلیتے ہیں اور پھر ہرمسئلے پرگفتگو کرتے ہیں۔ سورۂ البقرہ کی آیت ۱۴۳پربحث کرتے ہوئے انھوں نے ’المسئلۃ الخامسۃ‘ کے تحت لکھا ہے
اِخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ اَنَّ الشَّھَادَۃَ الْمَذْکُوْرَۃَ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی لِتَکُوْنُوا شُھْدَآءَ عَلٰی النَّاسِ تَحْصُلُ فِی الْاَخِرَۃِ اَوْ فِی الدُّنْیَا فَالْقَوْلُ الْاَوَّلُ اَنَّھَا تَقَعُ فِی الْاَخِرَۃِ
(مفاتیح الغیب ج۲،ص۱۲)
’’لوگوں نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ جو شہادت اللہ تعالیٰ کے قول لتکونواشھداء علی الناس میں مذکورہے وہ آخرت میں ہوگی یا دنیا میں ؟ توپہلا قول یہ ہے کہ وہ آخرت میں واقع ہوگی۔‘‘
امام رازی نے اس قول کی دوقسمیں کی ہیں۔ ایک یہ کہ آخرت میں امت مسلمہ کو یہ گواہی دینی ہوگی کہ تمام انبیاء سابقین نے اپنی امتوں کو خدا کا پیغام پہنچادیاتھا۔ دوسری بات یہ کہ اس امت کو خدا کے نافرمان لوگوں کے ان اعمال کے خلاف گواہی دینی ہوگی جن میں انھوں نے مخالفت کی تھی۔ اس کی تفصیل کے بعد انھوں نے ’القول الثانی‘ (دوسرا قول) کے تحت لکھا ہے
اِنَّ اَدَاءَ ھٰذِہٖ الشَّھَادَۃِ اِنَّمَا یَکُوْنُ فِیْ الدُّنْیَا (مفاتیح الغیب ج۲،ص۱۳)
’’یہ کہ شہادت دنیا میں ادا کرنی ہوگی۔‘‘
یہ قول کہ شہادت دنیا میں بھی دینی ہوگی، اس کی صحت پر امام رازیؒ نے دلائل دیے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے لکھا ہے
’’ہم نے دلیل سے واضح کیا ہے کہ اس امت کا دنیا میں گواہی دینا ضروری ہے اور یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ یہ امت قیامت میں بھی گواہ ہوجس طرح حدیثوں میں ذکر ہے۔‘‘
تامل ناڈو کے جن عالم صاحب نے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ پرالزام لگایا ہے، شاید انھوں نے تفسیر کبیر نہیں پڑھی ہوگی۔ (نومبر ۱۹۸۵ء،ج۳،ش۵)