امریکا کی اسرائیل کی غیر اخلاقی حمایت

اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے اپنے دورۂ امریکا کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیر قانونی یہودی بستیوں کو دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر قانونی حیثیت دی ہے۔ مزید برآں بیگن کی حکومت تین اور نئی بستیاں مغربی کنارے پر بسا رہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردّعمل کیا ہے؟
جواب

اس معاملے میں میرا ردّ عمل یہ ہے کہ امریکی حکومت اگر انصاف اور اخلاق کے تمام اصولوں کو نظر انداز کرکے یہودیوں کی بے جا حمایت اور امداد و اعانت کرنے پر تلی ہوئی نہ ہوتی تو اسرائیل کبھی اتنا جری و بے باک نہ ہوسکتا تھا کہ پے درپے ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکہ زنی اور غصب و ظلم کے جرائم کا ارتکاب کرتا چلا جاتا۔ اس لیے میں اصل مجرم امریکا کی بے ضمیری کو قرار دیتا ہوں جسے ساری دنیا کے سامنے اس جرائم پیشہ ریاست کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے ادنیٰ سی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔ امریکا یہودیوں سے اس حد تک دبا ہوا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی آمد کے موقع پر ان کے مذہبی پیشوا اور بااثر لیڈر امریکی صدر پر ہجوم کرکے آتے ہیں ، بیگن کی پذیرائی کے لیے اس پر دبائو ڈالتے ہیں اور اس کو درپردہ ہی نہیں اشاروں کنایوں میں یہ احساس بھی دلا دیتے ہیں کہ جسے امریکہ کا صدر بننا ہو وہ یہودی ووٹوں کا محتاج ہے۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق اور اخلاق و انصاف کے دعوے دار جمی کارٹر صاحب بیگن کے اس انتہائی بے شرمانہ بیان کو شیرِ مادر کی طرح نوش فرما لیتے ہیں کہ ’’دریائے اُردن کے مغربی جانب کا فلسطین، جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں سے چھینا گیا تھا وہ مقبوضہ (occupied)علاقہ نہیں ہے بلکہ آزاد کرایا ہوا lliberated علاقہ ہے اور یہ ہماری میراث ہے جس کا وعدہ چار ہزار برس پہلے بائبل میں ہم سے کیا گیا تھا اس لیے ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ یہ کھلی کھلی بے حیائی کی بات امریکی حکام اور عوام سب کے سب سنتے ہیں اور کوئی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ بائبل کی چالیس صدی قدیم بات آج کسی ملک پر ایک قوم کے دعوے کی بنیاد کیسے بن سکتی ہے اور ایسی دلیلوں سے اگر ایک قوم کے وطن پر دوسری قوم کا قبضہ جائز مان لیا جائے تو نہ معلوم اور کتنی قومیں اپنے وطن سے محروم کر دی جائیں گی۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء)