ٓپ کی کتاب ’عشروزکوٰۃ اور سود کے چند مسائل‘ پڑھ کر ایک الجھن پیداہوئی ہے آپ اسے دور فرمائیں۔ کتاب کے صفحہ ۱۴پرہے
’’کوئی شخص ہزاروں روپے کے سچے موتی اور جواہرات کامالک ہوتو اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے الا یہ کہ اس کی تجارت کررہاہو۔‘‘ اب یہ بات ذہن میں کھٹک رہی ہے کہ ساڑھے چھتیس تولہ چاندی پرزکوٰۃ واجب ہو اور ہزاروں روپے کے جواہرات پرزکوٰۃ واجب نہ ہو،یہ کیامعاملہ ہے؟ مولانا! کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ شریعت کامنشا سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔اگر آپ کی رائے صحیح ہے تو کیا آپ اس کی عقلی توجیہہ کرسکتے ہیں ؟
جواب
آپ میری کتاب غورسے سمجھ کرپڑھیں۔ آپ نے لکھا ہے ’’اگر آپ کی رائے صحیح ہے تو کیا آپ اس کی عقلی توجیہہ کرسکتے ہیں ؟‘‘ یہ عبارت بتاتی ہے کہ آپ نے کتاب غور سے نہیں پڑھی۔ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے اور اس کی تشریح، اموال زکوٰۃ کی تعیین، نصاب اور مقدار زکوٰۃ۔ یہ اور اسی طرح کے مسائل احادیث سے معلوم ہوتے ہیں اس لیے اس میں میری یا کسی اور کی رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔صفحہ ۱۰پر میں نے لکھاہے
’’ایسے غیرتجارتی اموال کی ہر قسم پرشریعت نے زکوٰۃ واجب نہیں کی ہے بلکہ کچھ مخصوص اقسام پرواجب کی ہے۔‘‘
آپ نے میری یہ عبارت غورسے نہیں پڑھی۔ میں نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ شریعت کا حکم ہے، میری اپنی رائے نہیں ہے۔شریعت کامنشا سمجھنے میں تمام علماء وفقہاء غلطی نہیں کرسکتے۔ سب اس پر متفق ہیں کہ جواہرات پرزکوٰۃ فرض نہیں ہے الا یہ کہ اس کی تجارت کی جارہی ہو۔ (مارچ اپریل ۱۹۸۰ء،ج۶۴،ش ۳۔۴)