جناب صوفی نذیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں
۵ بجے کی ڈاک سے زندگی کا پرچہ ملا۔ آپ نے قرآن مجید میں سے جو آیات حدود وقصاص وجہاد نقل فرمائی ہیں ان سے یہ توثابت ہوتا ہے اور شاید ہی کوئی فرد مسلم اس سے انکار کرے کہ یہ چیزیں مخصوص حالات میں امت پر فرض ہیں۔ مگر بعثت انبیاء کے مقصد وحید سے ان کا کیاتعلق ہے؟یہ بات تو میری سمجھ سے بالا ہے۔ مجھے تو صاف محسوس ہوتاہے کہ آپ جان بوجھ کر صرف جماعتی پوزیشن کو صحیح ثابت کرنے کے لیے خلط مبحث سے کام لے رہے ہیں۔ کیا اس کا یہ مقصد لیاجائے کہ تمام انبیاء ان حدود و قصاص کو قائم کرتے رہے اور دین کی غیرمتبادل بنیادیں یہی ہیں جنہیں ہررنگ وہرموقف میں قائم رہنا چاہیے۔ اگر یہ مقصد نہیں ہے تو پھر یہ دیانت کی سطح سے بہت نیچے کاخلط مبحث ہے۔ یہی خلط مبحث آپ کی سابقہ کتاب کے اکثر حصے کا خلاصہ ہے۔ اسی لیے میں نے آپ کے استدلال کی تفصیلات سے تعرض کرنے کے بجائے صرف بعثت انبیاء کے مقصد سے تعرض کیا۔ اس لیے کہ اگر مقصد کے تعین میں آپ لوگ باطل ٹھیرتے ہیں تو پھر آپ کی تاثر یّا اٹھائی ہوئی ساری نمائشی دیوار گرجاتی ہے۔ آپ کی کتاب کے ساتھ ہی آپ کی موجودہ تحریر سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک دین وشریعت دوہم معنی الفاظ ہیں۔ اس لیے وحدت دین انبیاء کے معنی وحدت شرائع کے خود سے خود ہوجاتے ہیں اورآپ نے قریباً کرڈالے ہیں۔ مگر راقم کے نزدیک تو یہ محض باطل سفسطہ اور نمائشی تشابہ ہے جسے آپ محض جماعتی عصبیت سے نباہنا چاہتے ہیں۔ اس کا آخری علاج تو صرف مقلب القلوب کے پاس ہے۔ البتہ عوام کے لیے خلط مبحث کو دور کرنے کے لیے تین معین باتیں پیش کرتا ہوا آپ کو ہادی ونصیر خدائے برحق کے سپرد کردیتاہوں۔ چاہے وہ آپ کو اس تاریکی تعصب سے نکال لے چاہے اسی پر آپ کا خاتمہ کرے۔ ۱۹۴۳ء میں غایت اضطراب میں اس کا اشارہ سا پایاتھا۔آج اس کی تکمیل کردیتا ہوں۔
(۱) (الف) انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد تطہیر قلوب، تزکیۂ نفوس، تکمیل ایمان واخلاق اور فرد کی تمام روحانی واخلاقی صلاحیتوں کو پوری طرح بیدار کرتے ہوئے انھیں لاتعداد صفات خدا داد سے مربوط کرنا ہے۔ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ۔ اس کے ساتھ ساتھ جو معاشرہ مومنہ بنتاجائے اس پر ان احکام شریعت کو بھی نافذ کیاجائے جو انبیاء کو وصول ہوچکے ہیں۔ پہلی حیثیت اصولی وبنیادی اورسب کی مشترکہ اساس ہے۔ دوسرا عمل ثانوی درجہ رکھتا ہے اورپھر یہ احکام ہرگز سب زمان ومکان میں غیر متبدل یکسانی نہیں رکھتے۔ یہ مختلف احوال وظروف میں انبیاء کی شرائع میں مختلف صورتیں رکھتے ہیں۔ یہ ان کی تعلیم کاثانوی حصہ ہے اورغیرمتبدل ویکساں دین کا حصہ نہیں ہے۔
(ب) انبیاء علیہم السلام کی بعثت کامقصد ریاست کاقیام ہے، جس کے ذریعے تنفیذ حدود شرعی کی جاسکے۔ رہا تطہیرقلب وتزکیۂ نفوس، تکمیل ایمان واخلاق اور ان کی لاتعداد اخلاقی وروحانی استعدادوں کا اللہ پاک کی لاتعداد صفات سے مربوط ہوکر اپنی تکمیل وتربیت کرنا تو یہ محض دوسرے درجے کی اور ضمنی چیزہے، اصل مقصد نہیں ہے۔
سخن سازی کے فن سے ایک طرف ہوکر سادہ اورمومنانہ انداز پرجواب دیجیے کہ صدرکے دوموقفوں میں سے کون صحیح اورکون ساری ترتیب کو الٹ دینے والا ایک مغالطہ ہے۔ یہ دوموقف اس درجہ باہم متمیز ہیں کہ ان میں خلط مبحث دیانت کا انکاریا عقل کا فقدان ہوگا۔ میرے بھائی کویہ بھی معلوم رہے کہ تنفیذحدودوقصاص اور جہاد بالسیف کے مقام تک سلسلہ انبیاء کی اکثریت مطلق پہنچی ہی نہیں۔ حضورؐ کے زمانے سے حضرت مسیح کا زمانہ نہایت قریب کاہے۔ ایمان داری سے بتائیے کہ انھوں نے کون سی ریاست قائم کی اور کتنے حدود وقصاص قائم کیے۔ میرے بھائی کو یہ بھی معلوم رہے کہ فوج داری ودیوانی قوانین کو نافذ کرنے کے لیے انسانی معاشرہ محض اپنی مادی بقا کے لیے بھی مجبورہوتاہے اور یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے کسی نہ کسی شکل میں عدل وقسط وتوازن معاشرہ بھی بحال رہتاہے۔ مگر کیا تطہیرقلوب وتزکیۂ نفوس وتکمیل ایمان واخلاق بھی ان لوگوں کے بس کی بات ہے؟ کیا ریاست کے فوج داری ڈنڈااور دیوانی قید خانے سے بھی یہ کام انجام پاسکتاہے؟
(۲) شریعتوں میں روحانی، اخلاقی، عائلی، عام معاشرتی ومعاشی جو فرائض وواجبات معین ہوتے ہیں کیا وہ اللہ پاک کی صرف صفت حاکمیت کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں یا وہ اللہ کی رحمت وربوبیت ورافت وعدل وغیرہ صفات کے مجموعی تقاضوں کو پوراکرنے والے ہیں ؟ توحید صفات الٰہی کو انسان کی بے شماراخلاقی وروحانی صلاحیتوں سے جو تعلق ہے، اسے پوری طرح سمجھیے اور جواب دیجیے۔ تاکہ سیاسی دین کو طعنہ سمجھنے کے بجائے آپ اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔ آپ کے ہاں توحید ذات وصفات کی غیرمتبدل اور ابدی اساس دین صرف، محض ایک منطقی مفروضہ ہے۔ وہ نظریہ ہے، اس سے زائدکچھ نہیں ہے۔ سورشتے سے بٹی ہوئی ڈوری اورایک رشتے کے فرق کوامیدہے سمجھ سکیں گے۔
(۳) ہرہر دائرہ حیات کے فرائض وواجبات معینہ کی تبلیغ ہرباخبرمسلم کا فرض ہے اور ہمہ وقتی فرض ہے۔لیکن کیا ہر ہر باخبر فرد مسلم کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنے ظن وتخمین وتخیل کی قوت سے چند خود آئند مزعومات مرتب کرڈالے۔ اسے کل دین کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کردے اور اس پر ایک جامع ومانع جماعت بناڈالے۔ جواس کے اپنے زعم کے مطابق کل دین کی حامل مانی جائے۔ کیا یہ وہی چیز نہیں کہ جسے قرآن مجید اقامت دین نہیں بلکہ تفرقہ فی الدین قراردیتا ہے۔ مودودی صاحب کے ابتدائی بیان کے مطابق دس آدمی اپنی اپنی سہولت کار کے مطابق ایسی دس جماعتیں بناسکتے ہیں، عملاً یہ دس دین ہوں گے۔ اب ایسے متوازن فرقوں کے باہمی تعلق کی کیا توعیت ہوسکتی ہے، اسے محسوس کرنے کے لیے اپنے اور بستی کی تبلیغی جماعت کے رابطے سے اندازہ کرلیجیے۔
جواب
یہ بہت اچھا ہوا کہ آپ نے مجھے خدائے برحق کے سپرد کرکے اپنی حجت تمام کرلی کیوں کہ میں بھی آپ جیسے بزرگوں سے کسی بحث میں الجھنا پسند نہیں کرتا۔ اگر آپ یہ اشارہ نہ کرتے کہ اس سلسلے میں یہ آپ کا آخری خط ہے تو میں اسے شائع کرنے اور جواب دینے کی ہمت نہ کرتا۔ میں بھی اس سلسلے میں آخری طورپر آپ سے چند باتیں عرض کرکے یہ گفتگو ختم کررہاہوں۔
(۱) آپ نے اب اپنے ا س خط میں حدود وقصاص وجہاد کے مخصوص حالات میں فرض ہونے کی جو بات کہی ہے اور دین وشریعت کے فرق کی طرف جو توجہ دلائی ہے، راقم الحروف نے اپنی کتاب ’امت مسلمہ کا نصب العین‘میں تین عنوانات کے تحت اس پر بحث کی ہے۔ وہ تین عنوانات یہ ہیں (۱) شریعتوں کے اختلاف کی نوعیت (۲) ہم پوری شریعت کے مخاطب ہیں (۳) دلیل شرعی کے بغیر کوئی مطلق حکم مقید نہیں ہوسکتا- لیکن آپ کے پاس اتنا وقت کہاں ہوگا کہ اسے پڑھنے کی زحمت گوارا کریں۔ اقامت دین کے نصب العین اور جماعت اسلامی پراعتراضات کرنے کے لیے میری کتاب کو ڈھال بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تکلف آپ نے بے کار کیا۔ میں نے وہ کتاب اسی طرح کے اعتراضات دفع کرنے کے لیے لکھی ہے۔ اب اگر کوئی شخص میرے دلائل کا جواب دیے بغیر وہی اعتراض دہرائے چلاجائے تو میرے بس میں یہ نہیں ہےکہ میں اس کو روک سکوں۔ یہ تومناسب نہیں کہ میں اپنی کتاب کے وہ تمام مباحث یہاں نقل کروں اس لیے اس سے ہٹ کر چند نکات پراکتفا کر رہاہوں۔
(الف) تمام امت اس پر متفق ہے کہ شریعت دین کاجزوہوتی ہے، اس سے خارج نہیں ہوتی۔ اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت بھی داخل ہے۔ مثال کے طورپر کوئی معقول آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہاقیموا الدین کے حکم سے اقامت صلوٰۃ خارج ہےحالاں کہ نماز شریعت کی ایک فرد ہے۔
(ب) اللہ کی طرف سے نازل کردہ شریعتوں میں اختلاف محض جزوی رہاہے۔
(ج) ہرنبی ورسل اپنے وقت میں اس شریعت پرعمل اوراس کی اقامت کے مکلف تھے جو ان پر نازل ہوئی۔ آخر کس عقل سے یہ سوچا جاسکتا ہے کہ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف ان احکام کی اقامت کے مکلف نہ تھے جو ان پرنازل ہوئے بلکہ ان احکام کی اقامت کے مکلف بھی تھے جو پانچ سو برس بعد حضرت محمدؐ پر نازل ہونے والے تھے یا کس عقل میں یہ نکتہ سماسکتا ہے کہ سیدنا محمدﷺ صرف اتنی ہی بات کی اقامت کے مکلف تھے جو حضرت نوح وابراہیم موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام پرنازہوئی تھی اور جو باتیں خاص آپ پر نازل کی گئیں ان کی اقامت کے مکلف نہ تھے۔
(د) شریعت محمدی مکمل اور دائمی ہے جس میں قیامت تک کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ کیوں کہ اب کوئی نئی شریعت آنے والی نہیں ہے۔
(ہ) سیدنا محمدﷺ اس دین وشریعت کی اقامت کے مکلف تھے جو آپ پر نازل ہوئی اور اب امت محمدیہ قیامت تک اسی شریعت پرعمل اور اس کی اقامت کی مکلف ہے۔ شریعت محمدی کے بعد تمام سابق شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں الا یہ کہ شریعت محمدی نے ان میں سے کسی حکم کو باقی رکھاہو۔ ان مسلمات کے بعد فریضۂ اقامت دین کے ذیل میں اختلاف شرائع کی بحث چھیڑنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اس کے بارے میں کم سے کم یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ بحث چھیڑنے والا مسلمان اس فریضے سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اپنے کو اور دوسروں کو فریب میں مبتلا کررہاہے یا شریعت محمدی کو بھی غیرمتبدل تسلیم نہیں کرتا۔
(۲)فقہائے امت نے بھی صراحت کے ساتھ لکھا ہے اور جماعت اسلامی بھی بیسیوں بار کہہ چکی ہے کہ حکومت خود مقصد نہیں ہے بلکہ حصول مقصد کے لیے موقوف علیہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن کے تمام احکام وقوانین کی تنفیذ کی جائے۔ حدودوقصاص اوراس طرح کی بہت سے احکام کی تنفیذ حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے موقوف علیہ ہونے کی حیثیت سے اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کی صورت کیا ہے تو میں نے اس کا جواب اپنی کتاب کے آخری باب میں دیاہے جس کا عنوان ہی ہے’ذمہ داری سے عہدہ بر آہونے کی صورت۔‘ میری آپ سے بھی درخواست ہے اور ان تمام حضرات سے جو آپ کا خط پڑھیں گے کہ میری کتاب کے یہ حصے ضرور ملاحظہ کرلیں۔
(۳) آپ نے ’’انبیاکابنیادی فرض اوران کی ثانوی حیثیت ‘‘ کے تحت انبیاء کے اصل مقصد اورثانوی مقصد کی جو تقسیم کی ہے اس سے پہلے لکھا ہے کہ’’۱۹۴۳ء میں غایت اضطراب میں اس کا اشارہ ساپایا تھا آج اس کی تکمیل کر دیتاہوں۔ ‘‘
گویا اس تقسیم کی دلیل وحجت وہ اشارہ ہے جو آپ نے ۱۹۴۳ء میں پایاتھا۔ یہ ہے وہ اصل دلیل جو آپ جیسے بزرگوں کے پاس ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے نزدیک اس طرح کے اشارات والہامات دین میں دلیل وحجت نہیں ہیں اس لیے ان مسائل میں ہمارے اور آپ کے درمیان گفتگو کی کوئی متفقہ بنیاد ہی موجود نہیں ہے۔ آپ اپنے الہامات پرعمل کریں اور ہم کتاب وسنت پر عمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں - اس سے الگ ہٹ کر میں آپ ہی کے الفاظ میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ ’سخن سازی کے فن سے ایک طرف ہوکر سادہ اور مومنانہ انداز پرجواب دیجیے‘ کہ انبیاء کرام کی بعثت کامقصد وہ تھا جو آپ نے اپنے پہلے خط میں (جو زندگی مارچ ۱۹۶۹ء میں شائع ہواہے) ظاہر کیاتھا یا یہ ہے جو آپ نے اپنے اس تازہ خط میں ظاہر کیا ہے؟ پہلے خط میں تو آپ نے متعدد آیتیں جمع کرکے صرف تبلیغ کو ’رسولوں کاقرآنی موقف‘ قراردیاتھااور مجھے متوجہ کیاتھا کہ ’’انما اور الا کے کلمہ حصر کو لگاتار ملاحظہ فرماتے جائیں، اسے نظر سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ ‘‘
اور اس تازہ خط میں آپ نے انبیاء کا جو اصل مقصد لکھا ہے اس میں تطہیر قلوب بھی ہے، تزکیۂ نفوس بھی ہے، تکمیل ایمان واخلاق بھی ہے، فرد کی تمام روحانی واخلاقی صلاحیتوں کو بیدار کرنا بھی ہے اورپھر انھیں لاتعداد وصفات خدا داد سے مربوط کرنا بھی ہے- آپ کے دونوں خط پڑھنے والا حیران ہوگا کہ آپ کی کس بات کو صحیح سمجھے؟ افسوس ہے کہ آپ نے ۱۹۴۳ء میں جو اشارہ پایا تھا اس میں ذراسی کسر رہ گئی۔ اگر اس میں اتنا اورشامل ہوجاتاکہ ’انبیاء کرام کامقصد بعثت یہ بھی تھا کہ ان پر جو دین نازل کیاگیا ہے اس کو قائم اورباطل ادیان پراس کو غالب کریں ‘ توشاید ہم میں اورآپ میں اختلاف باقی نہ رہتا۔
(۴) ہم لوگ اللہ کے فضل وکرم سے صرف اس کی صفت حاکمیت ہی پر نہیں بلکہ اس کی تمام صفات پرایمان لائے ہیں، ان پر یقین رکھتے ہیں، ان کی تبلیغ کرتے ہیں اوران کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کا جو جی چاہے سمجھتے رہیے، جواب آپ کو نہیں دینا ہے بلکہ اس کو دینا ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں۔ البتہ ہمیں اپنی عبادت وریاضت اور روحانیت پرکوئی غرہ نہیں ہے بلکہ ہم تو اپنے کسی ایک سجدے کو بھی اس بارگاہ عظمت وجلال کےلائق نہیں سمجھتے۔ اگروہ قبول کرے تو یہ محض اس کا کرم اوراس کا احسان ہے۔
(۵) جماعت سازی کو مطلقاً تفرقہ فی الدین قراردینا سوء فہم کا نتیجہ ہے۔ جماعت اسلامی متعدد بار کہہ چکی ہے کہ وہ اپنے کو ’الجماعۃ ‘ نہیں سمجھتی بلکہ فی الواقع امت مسلمہ کے موجودہ منتشرافراد کو ’الجماعۃ‘ بنانے کے لیے اس نے اپنی ایک تنظیم قائم کی ہے، جس دن وہ ’الجماعۃ‘ وجود میں آگئی اسی دن کسی علیحدہ تنظیم کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ (مئی ۱۹۶۹ء ج ۴۲ ش۵)