آپ نے اشارات میں حضر ت شعیب علیہ السلام کی دعوت پیش فرماتےہوئے تحریر فرمایاہے
’’انبیاء علیہم السلام کی بعثت کامقصد صرف اتنا نہ تھا کہ وہ اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیں اور ایمان لانے والوں کو اللہ کے بشارت اور منکر حق کو اس کے عذاب کی وعید سنائیں بلکہ وہ معاشرے کی کامل اصلاح اورسماج میں ہمہ گیر انقلاب برپا کر نے کے لیے بھیجے جاتے تھے۔انسان کے پاس صرف دوچیزیں ہیں روح وبدن اور مال ومتاع۔ وہ جس طرح انسان کی روح وبدن کو صرف خدا کی چوکھٹ پرجھکادینا چاہتے تھے ٹھیک اسی طرح اس کے کاروبار اور نظام اقتصادیات کو بھی صرف قانون الٰہی کا پابند بنادینا چاہتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کے جواب میں بانداز طنز وتضحیک ان کی قوم نے جو بات کہی تھی وہ یہ تھی ’’اے شعیب ! کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے ان سارے معبودوں کو چھوڑدیں جن کی پرستیش ہمارے باپ داد کرتے تھے، یا کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیارنہ ہو۔بس توہی تو ایک عالی ظرف اورراست باز آدمی رہ گیاہے۔‘‘ (ھود۸۷)اس جواب سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کے مخاطبین نے ان کی دعوت کے دونوں اجزا کو اچھی طرح سمجھ لیاتھا۔ ‘‘
(زندگی، اگست ۱۹۶۲ء)
میرے محبوب دوست !دعوت کے ان دونوں اجزامیں پہلا جز بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جس کو ہم نے آج تقریباً نظر انداز کردیا ہے اورصرف دوسرے جز پرہی پوری صلاحیتیں خرچ کررہے ہیں -
کفار ومشرکین نے رسولوں کو جو دھمکی دی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھاہے
’’تقریبا یہی دھمکی جن سنگھ اورہندومہاسبھا ہندوستان کے مسلمانوں کو دے رہی ہے۔‘‘
وہاں شعیب علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے آبائی دین سے ہٹاکر دین اسلام قبول کرنے کی دعوت پروہ دھمکی تھی اوریہاں پاکستان یا کوئی اوردنیوی تعلق سے دھمکی ہے۔’ تقریباً یہی دھمکی ‘ کہنا خود فریبی ہے یا حقیقت ہے؟
مجھے آپ حضرات سے محبت ہے اور میں آپ حضرات کا ہمدردوخیرخواہ ہوں اور جو کچھ لکھ رہاہوں اس امید پرلکھ رہاہوں کہ شاید آپ حضرات سنجیدگی سے غورفرماکر نبوی طریقۂ تعلیم کو صحیح معنی میں اپنا کر فلاح دارین حاصل کریں۔
جواب
شکر گزارہوں کہ آپ نے جو بات محسوس کی ہمیں اس کی طرف بڑے خلوص کے ساتھ متوجہ فرمایا۔ آپ کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ اسلام کی دعوت کا پہلا جز یعنی توحید اور بندگیِ رب بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہی اصل ہے اور تمام دوسری چیزیں اس کی شاخیں ہیں۔ لیکن غورکرنے اور اپنا جائزہ لینے کے بعد بھی یہ بات کہ ’ہم نے اسے تقریباً نظر انداز کردیا ہے ‘ سمجھ میں نہیں آئی۔ معلوم نہیں آپ کے اس احساس کا سبب کیا ہے؟ جماعت اسلامی کے دستور میں بھی،‘ اس کے لٹریچر میں بھی اور اس کی پالیسی اور پروگرام میں بھی توحیداور صرف خدا کی بندگی کو اصل کی حیثیت دی گئی ہے اور ہماری دعوت کا نقطۂ آغاز یہی ہوتاہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے۔اس کا ایک خدا ہے او روہی اس لائق ہے کہ اس کی پرستش اوراطاعت کی جائےاور زندگی کے تمام شعبوں میں کی جائے۔ اسی میں انسان کی اخروی فلاح بھی ہے، فلاح دارین کی ضامن صرف خدا کی اطاعت ہے۔ سیدنا محمد ﷺ اس دنیا میں اللہ کے آخری رسول اور آخری نبی ہیں۔ آپ ہی سرورعالم اورجگت گروہیں۔ آپ پر ایمان لائے بغیر اورآپ کی رہ نمائی قبول کیے بغیر کوئی شخص نجات نہیں پاسکتا۔ہم دوسرے نظاموں کےمقابلے میں جب اسلامی نظام پیش کرتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا امتیاز یہی بتاتے ہیں کہ یہ انسانوں کا گھڑا ہوا نہیں ہے‘ بلکہ اللہ رب العالمین کا اتارا ہواہے اورصرف اسی کو اس بات کا حق ہے کہ وہ زندگی کے لیے قانون دے۔ یہی دعوت ہے جسے پھیلا کر ہم قلم سے بھی پیش کرتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اور جہاں تک ماہ نامہ زندگی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ اس میں خدا، رسول اورآخرت کے سوا کچھ ہوتا ہی نہیں۔ پھر یہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے کہ ہم نے توحید، رسالت اور آخرت کو تقریباً نظر انداز کردیا ہے۔ اگر آپ کے احساس کا سبب یہ ہے کہ ہم صرف یہی کام کیوں نہیں کرتے اور اسلام کے سیاسی ومعاشی پہلو کو لوگوں کے سامنے کیوں پیش کرتے ہیں اور اسلامی نظام کو دوسرے نظاموں پرغالب کرنے کی جدوجہد کیوں کررہے ہیں ؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسی طریقہ تبلیغ کو نبوی طریقہ تبلیغ سے مطابق پاتے ہیں اور ہم یہ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ مثال کے طورپر حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کا دوسرا جز بھی نبوی طریقہ تبلیغ سے خارج نہیں ہے۔ باقی رہی پہلے جز کی اہمیت توبحمداللہ ہم اس سے غافل نہیں ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔
جن سنگھ، ہندومہاسبھا اور راشٹریہ سیوم سنگھ کی جماعتیں مسلمانوں کو جو دھمکی دے رہی ہیں اور ان سے جو مطالبہ کررہی ہیں وہ صرف پاکستان اورکسی دنیوی مفاد کے تعلق سے نہیں ہے، بلکہ اصلاً ہمارے دین، ہماری تہذیب اورہماری انفرادیت کے تعلق سے ہے۔ ہندومہاسبھا کے لیڈرتوصاف صاف کہہ رہے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں ہندوبن کر رہیں، ورنہ یہاں سے نکل جائیں۔ ایک جن سنگھی لیڈر اپنی تقریر میں یہ بھی کہہ گیا کہ ’’جب میں مسجدوں کے اونچے اونچے میناردیکھتاہوں تو میری آنکھوں میں خون اترآتاہے۔‘‘ اس لیے میں نے اشارات میں جن سنگھ اور ہندومہاسبھا کی دھمکی کے بارے میں جوبات لکھی ہے وہ واقعہ ہے، خودفریبی نہیں ہے۔ بہرحال میں آپ کی توجہ دہانی کا شکر گزارہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پرقائم رکھے۔ (اگست ۱۹۶۵ءج۳۵ ش۲)