ایک صاحب نے مولانا مودودی کی متعدد عبارتیں پیش کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کا ہے اوریہ کہ امیر کاانتخاب اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقَاکُمْ کے اصول پر مسلمان عوام کریں گے۔
عبارتیں پیش کرکے انھوں نے اعتراض کیا ہے کہ دونوں اصول آپس میں ٹکرا رہےہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان عوام جس کو منتخب کریں گے وہ ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا جو حقیقی مالک ملک اور آقا کے منشا کی تکمیل کرے۔ اس لیے حکومت الہٰیہ میں مسلم عوام کو حق تقرر دینا بالکل غلط ہے۔ اگر مولانا کہتے ہیں اورٹھیک کہتے ہیں کہ ملک خدا کا ہے اور قانون دینے والا بھی وہی ہےتو حاکم امیر بھی وہی ہوگا جو خدا کی طرف سے مقرر کیاجائے۔
برائے مہربانی اس کا جواب مرحمت فرمائیں۔
جواب
انتخاب امیر کے سلسلے میں جو اعتراض کیاگیا ہے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جناب معترض نےنہ تو خلافت الٰہی کے مسئلے کا مطالعہ کیا ہے اور نہ اس موضوع کی تفصیلات ان کے سامنے آئی ہیں۔ اس لیے آپ انھیں خلافت الٰہی اور انتخاب امیر سے متعلق لٹریچر مطالعہ کے لیےدیں۔ یہاں تفصیل پیش کرنا موجب طوالت ہے۔ ہم معترض کی عبارت کو سامنے رکھ کر اختصار کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں۔
اسلام حاکمیت الٰہ اورخلافت ونیابت جمہورکا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقتدر اعلیٰ یا حاکم مطلق اللہ تعالیٰ ہے اوراس کے فرماں بردار بندے یعنی مسلم عوام اللہ تعالیٰ کے نائب اور اس کے خلیفہ ہیں۔ ان کاکام یہ ہے کہ اپنےخالق ومالک کی بندگی کریں۔ اس کی مرضیات پرچلیں اورنیابتاً اس کے احکام وقوانین دنیا میں نافذ کریں۔ (اپنی خلافت ونیابت تو اللہ نے تمام انسانوں کو عطا کی ہے لیکن جن لوگوں نے کفروشرک کا رویہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو اصل حاکم سمجھ بیٹھے، انھوں نے اپنے آپ کو نیابت الٰہی کے شرف سےمحروم کرلیا ہے) یہ نیابت وخلافت اللہ تعالیٰ تخلیق آدم کے وقت ہی عطا فرماچکا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر ہر مسلمان قانون اپنے ہاتھ میں لےلے اور خود ہی اس کو نافذ کرنے لگے تو کوئی نظام چل نہیں سکتا بلکہ کوئی اجتماعی نظم قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے مسلم عوام اپنی رایوں سے اپنا ایک امیر منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ سب کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے احکام وقوانین نافذ کرے۔ اس طرح ایک اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے۔ ان کا امیر ان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے اگر وہ غلط راہ پر چلنے لگے تو انھیں اس امیر کو معزول کردینے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس سےمعلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مالک الملک ہونےاور مسلم عوام کی رائے سے امیر کے برسراقتدار آنے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
معترض کا یہ مفروضہ کہ مسلمان عوام جس کو امیر منتخب کریں گے وہ حقیقی مالک الملک اورآقا کے منشا کی تکمیل نہیں کرسکتا، صحیح نہیں ہے۔ حقیقی مالک نے اپنے منشا، اپنی مرضیات اور اپنے احکام وقوانین کو اپنی کتاب میں واضح کردیا ہے اور اس کے رسول مقبول ﷺ نے خود عمل کرکے اس کا اعلیٰ نمونہ دکھابھی دیاہے۔اس لیےیہ بات ناقابل فہم ہے کہ مسلمانوں کا امیر حقیقی مالک کے منشا کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ نے حقیقی مالک کے منشا کی ایسی تکمیل کی تھی کہ آج دنیا اس کے لیے ترس رہی ہے۔اللہ نے اپنی آخری کتاب نازل کردی ہے او روہ اپنا آخری رسول بھیج چکا ہے۔ اب قیامت تک نہ کوئی کتاب نازل ہونے والی ہے اور نہ کوئی نبی آنے والا ہے۔اس لیے اب امت مسلمہ کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے جس میں اللہ کے بھیجے ہوئے تمام احکام وقوانین پر عمل کیاجاسکے اور دنیا امن وسکون سے ہم کنار ہو۔ (نومبر۱۹۷۱ءج۴۷ش۵)