میں نے آپ کی کتاب ’اولیاء اللہ‘ کامطالعہ کیا۔ ص۲۴پر جو حدیث درج کی ہے اور ترجمہ ۲۵ پرجاکر ختم ہواہے۔ اس ترجمہ کے آخرمیں یہ الفاظ ہیں
’’مجھے اپنے بندۂ مومن کی روح قبض کرنے میں جو تردد ہوتا ہے وہ کسی دوسری چیز میں نہیں ہوتا کیوں کہ وہ موت کو ناپسند کرتاہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ بندۂ مومن ہوتے ہوئے موت کو ناپسند کرتاہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ جب کہ معلوم ہے کہ موت برحق ہے اور موت کو برابر یاد کرنے کا حکم بھی دیاگیا ہے۔
جواب
آپ کے سوال کا جواب اختصار کے ساتھ کتاب ’اولیاء اللہ‘ میں ہی موجود ہے۔ میں نے اس حدیث کے ہر ٹکڑے کی تشریح کی ہے، آخری ٹکڑے کی تشریح میں لکھا ہے
’’لازمی ہے کہ وہ موت کا مزہ چکھے، خواہ طبعی طورپر موت اسے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔‘‘
(ص۳۵)
موت کے برحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر متنفس کو موت کا مزہ ضرور چکھنا ہے۔ جس کو اس دنیا میں زندگی ملی ہے، اس کے لیے موت بھی مقدر ہے۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ (ہرمتنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے)۔ موت کے برحق ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ انسان کے لیے کوئی پسندیدہ اورخوش گوار شے ہے۔ آپ کو موت کے برحق ہونے کا صحیح مطلب ذہن میں رکھنا چاہیے۔ خود قرآن میں موت کو مصیبت کہاگیا ہے۔
اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃُ الْمَوْتِ۰ۭ (المائدہ۱۰۶)
’’اگر تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت پیش آجائےـــــــ‘‘
موت چوں کہ ایک بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہے اس لیے طبعاً ہر انسان اسے ناپسند کرتا ہے ۔ مثال کے طورپر کانٹے کی چبھن اور چاقو کی مار ہر ایک کو تکلیف پہنچاتی ہے اور کوئی اس کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن مومن اور کافر میں فرق یہ ہے کہ مومن کو جب اپنے اجر آخرت اور وہاں کی زندگی کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے تو موت اس کی سب سے محبوب شے بن جاتی ہے۔ حدیث میں جو کہا گیا ہے کہ’’ وہ موت کو ناپسند کرتاہے‘‘ تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ طبعاً موت کو ناپسند کرتا ہے۔ حسن اتفاق سے ایک صحیح حدیث میں اس کی توضیح موجود ہے۔
’’ایک بار نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی موت کو اور اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتاہے اور جو کوئی موت کو اور اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہ ہم توموت کو ناپسند کرتے ہیں ۔ حضورؐ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کاوقت آتا ہے تواس کو رضائے الٰہی اور اس عزت وفضیلت کی خوش خبری سنائی جاتی ہے جواللہ کے پاس اس کے لیے ہے تو اس وقت مومن کو اس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں رہتی جو اس کے آگے آنے والی ہے۔ وہ اللہ سے ملاقات کا مشتاق ہوجاتاہے اور اللہ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت آتاہے تواس کو اللہ کےعذاب کی خبر دی جاتی ہے، اس وقت کافر کو اس سے زیادہ کوئی چیز ناپسند نہیں ہوتی جو اس کے آگے آنے والی ہے۔ ‘‘
(مشکوٰۃ کتاب الجنائز)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحت وقوت کی حالت میں طبعی طورپر موت کو ناپسند کرنا مومن کی شان اور اس کے ایمان کے خلاف نہیں ہے۔ موت کو یادکرنے اور یاد رکھنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کوئی بہت محبوب چیز ہے جس کے نام کا وظیفہ پڑھا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن پرغفلت طاری نہ ہو، ایسا نہ ہوکہ وہ مو ت کو بھول کر اللہ کی نافرمانی کرنے لگے۔
(اگست ستمبر۱۹۷۴؍ج۵۲ش۲۔۳)