جواب
آپ چونکہ ڈاکٹر ہیں ، اس لیے اس بات کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگرچہ جسم کے مختلف حصوں کے افعال (functions) الگ الگ ہیں ، لیکن کوئی حصہ بھی بجاے خود تنہا کوئی فعل نہیں کرتا بلکہ دوسرے اعضا کے تعامل (co-ordination) سے اپنا کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ مادئہ منویہ بننے کی جگہ بلاشبہہ فوطہ ہے اور وہاں سے اس کا اخراج بھی ایک خاص راستے سے ہوتا ہے لیکن معدہ، جگر، پھیپھڑے، دل، دماغ، گردے اگر اپنا کام نہ کر رہے ہوں تو کیا مادئہ منویہ کے بننے اور نکلنے کا یہ نظام بطورِ خود اپنا کام کرسکتا ہے؟ اسی طرح مثال کے طور پر دیکھیے کہ پیشاب گردے میں بنتا ہے اور ایک نالی کے ذریعے مثانے میں پہنچ کر پیشاب کے راستے سے خارج ہوتا ہے۔ مگر کس چیز کے نتیجے میں ؟ خون بنانے والے اور اس کو سارے جسم میں گردش دے کر گردے تک پہنچانے والے اعضا اگر اپنا کام نہ کر رہے ہوں تو کیا تنہا گردہ خون سے وہ مادے الگ کرکے مثانے میں بھیج سکتا ہے جن کے مجموعے کا نام پیشاب ہے؟ اسی لیے قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ یہ مادہ ریڑھ کی ہڈی اور سینے کی ہڈیوں میں سے نکلتا ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان جسم کا جو حصہ واقع ہے اس سے یہ مادہ خارج ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی نفی نہیں ہے کہ مادئہ منویہ کے بننے اور اس کے اخراج کا ایک خاص نظام عمل (mechanism) ہے جسے جسم کے کچھ خاص حصے انجام دیتے ہیں ، بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظام عمل مستقل بالذات نہیں ہے۔ یہ اپنا کام اس پورے نظام اعضا کے مجموعی عمل کی بدولت انجام دیتا ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے صلب اور ترائب کے درمیان رکھ دیا ہے۔ اسی لیے میں نے یہ وضاحت کی ہے کہ پورا جسم اس میں شامل نہیں ہے، کیونکہ اگر ہاتھ اور پائوں کٹ جائیں تب بھی یہ نظام کام کرتارہتا ہے، البتہ صلب اور ترائب کے درمیان جو اعضاے رئیسہ واقع ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے تو یہ نظام اپنا عمل جاری نہیں رکھ سکتا۔ طبی لحاظ سے اگر میری اس تشریح میں کوئی غلطی ہو تو براہِ کرم مجھے مطلع فرمائیں ۔ (ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۷۱ء نیز ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ج۶، صفحہ۵۸۳،۵۸۴)