جدید فقہی مسائل
انشورنس کے بارے میں آپ کا یہ خیال درست ہے کہ اس میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں ۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ اس کے لیے طویل اور مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ میں نے اب تک اپنی انشورنس کمپنی پر لائف انشورنس کے کاروبار سے احتراز کیا ہے۔ لیکن اب غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زندگی کے بیمے کی قباحتوں کو درج ذیل تدابیر سے رفع کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ زرضمانت حکومت کے پاس جمع کراتے وقت یہ ہدایت دی جاسکتی ہے کہ اس روپے کو سودی کاروبار میں لگانے کے بجاے کسی سرکاری کارخانے یا پی۔آئی۔ڈی۔ سی({ FR 1566 }) میں حصص خریدے جائیں ۔ کوشش کی جائے تو امید ہے کہ حکومت اس بات کو مان لے گی۔ اس طرح سودی کام میں اشتراک سے نجات ہوسکتی ہے۔
۲- کمپنی کو اختیار ہے کہ جس فرد کا چاہے بیمہ منسوخ کر دے یا پہلے ہی قبول نہ کرے۔ ہم قواعد میں یہ گنجائش رکھ سکتے ہیں کہ جو صاحب چاہیں اپنی رقم وارثوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کی ہدایت کرسکتے ہیں ۔ خدا و رسول کے احکام کی شدت سے پابندی یہ شرط لگا کر بھی کی جا سکتی ہے کہ جو حضرات شرعی تقسیم پر رضامند نہ ہوں ان کا بیمہ قبول نہ کیا جائے تاکہ ہمارے ہاں وہی لوگ بیمہ کرا سکیں جو ہمارے مطلوبہ شرعی اصولوں پر چلیں ۔
۳- قمار کی آمیزش سے بچنے کے لیے بیمہ کرانے والے لوگوں کو یہ ہدایت کرنے پر آمادہ کیا جائے کہ ان کی موت کی صورت میں صرف اتنا روپیا ورثا کو دیا جائے گا جو وہ فی الحقیقت بذریعہ اقساط جمع کروا چکے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ اگرچہ بحالات موجودہ اس کاروبار میں شرکا پہلو بہت غالب ہے لیکن خیر کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل قباحتوں کی شدت محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کا ارادہ کرلیا تھا مگر بعد میں محسوس کیا کہ کوئی ایسی راہ نکالی جائے جس سے دوسروں کے لیے مثال قائم ہوسکے اور اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے انشورنس کا کاروبار چلایا جا سکے۔ آپ تکلیف فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں ۔
جواب
آپ نے اب جو صورت انشورنس کے کاروبار کرنے کے متعلق لکھی ہے، اس سے مجھے توقع ہے کہ اس کی حرمت کے اسباب ختم ہوسکیں گے۔ میرے نزدیک اس کو جواز کے دائرے میں لانے کے لیے کم از کم جو کچھ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے:
۱- حکومت کو اس امر پر راضی کیا جائے کہ وہ کمپنی کا زرِ ضمانت اپنے کسی سرکاری یا نیم سرکاری صنعتی یا تجارتی کام میں حصہ داری کے اصول پر لگا دے اور کمپنی کو اس کا ایک متعین نہیں بلکہ متناسب منافع دے۔
۲- کمپنی اپنے دوسرے سرماے کو بھی ایسے منافع بخش کاموں میں لگائے جن میں سود کے بجاے منافع اس کو حاصل ہو۔ کسی قسم کے سودی کاروبار میں اس کے سرماے کا کوئی حصہ نہ لگایا جائے۔
۳- زندگی کا بیمہ صرف انھی لوگوں کا قبول کیا جائے جو دو باتوں کو تسلیم کریں ۔ ایک یہ کہ ان کی موت کے بعد صرف ان کی جمع شدہ رقم ہی وارثوں کو دی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ شرعی قاعدے کے مطابق یہ رقم تمام وارثوں میں تقسیم ہوگی۔
۴- بیمہ کرانے والوں میں سے جو لوگ اپنی رقوم پر منافع چاہتے ہوں ان کا روپیا ان کی اجازت سے اسی قسم کے تجارتی کاموں میں حصہ داری کے اصول پر لگا دیا جائے جن کا ذکر اوپر میں نے نمبر۲ میں کیا ہے۔
یہ چار اصلاحات اگر آپ نافذ کرسکیں تو اس سے صرف یہی فائدہ نہ ہوگا کہ آپ کی کمپنی کا کاروبار پاک ہو جائے گا بلکہ اس سے ملک میں انشورنس کی اصلاح چاہنے والوں کو عام طور پر بڑی مفید راہ نمائی ملے گی۔ (ترجمان القرآن، فروری۱۹۶۶ء)