آپ نے اپنی کتاب’عشروزکوٰۃ اور سود کے چند مسائل‘ میں جان ومال کے بیمہ (انشورنس) کو ناجائز لکھا ہے۔ اس کی وجہ آپ نے یہ بتائی ہے کہ اس میں سود،جوا اور قانون وراثت کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے اور یہ تینوں چیزیں بہ نص قرآن حرام ہیں۔ لیکن ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے انشورنس کے جواز پرایک طویل مقالہ لکھا ہے جو ’اسلام اور عصرجدید ‘ کے دوشماروں میں شائع ہواہے۔ آپ نے ان کا وہ مقالہ پڑھا ہوگا اور نہ پڑھا ہوتوپڑھ لیجیے۔ انھوں نے اپنے مقالہ میں جو دلائل دیے ہیں ان کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟ مہربانی کرکے ’زندگی‘ میں جواب دیجیے گا تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے مطلع ہوں۔
جواب
میں نے جناب نجات اللہ صدیقی صاحب کامقالہ غور سے پڑھا ہے، آپ نے شاید سرسری طورپر اسے پڑھا ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں جس انشورنس کو ناجائز کہاہے وہ مقالہ اس کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کی تائید کرتا ہے۔ آپ نے اس بات پر غورنہیں کیا کہ میں نے انشورنس کے موجودہ کاروبار کو ناجائز کہا ہے۔ اور ڈاکٹر نجات اللہ صاحب نے انشورنس پراصولی بحث کی ہے اور شرعی خرابیوں سے پاک انشورنس کو جائز ثابت کیا ہے۔ ان کے مقالے کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح غیرسودی بینک کاری ممکن ہے اسی طرح سود وغیرہ خرابیوں سے پاک انشورنس کی تنظیم بھی ممکن ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سب سے پہلا جملہ یہ لکھا ہے
’’اس وقت جان ومال کے انشورنس کا جو کاروبار چل رہاہے وہ ہمارے نزدیک ناجائز ہے۔‘‘
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب اپنے مقالہ کی ابتدا ہی میں لکھتے ہیں
’’اسلامی نظام میں انشورنس کی تنظیم اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ ہر چیز کے ناجائز عناصر سے پاک اور سماج کے لیے خیروبرکت کاموجب ہو۔ جدید انشورنس میں سود سرایت کیے ہوئے ہے مگر یہ اس کا لازمی جز نہیں ہے۔ سود کے بغیر بھی انشورنس کی تنظیم ممکن ہے۔‘‘
(انشورنس اسلامی نظام معیشت میں، اسلام اور عصرجدید، اپریل ۱۹۷۲ء،ص۵۲)
آپ نے دیکھا۔ڈاکٹر صاحب خود تسلیم کررہے ہیں کہ جدید انشورنس میں سود سرایت کیے ہوئے ہے لیکن چوں کہ سود انشورنس کالازمی جز نہیں ہے اس لیے سود کے بغیر بھی اس کی تنظیم ممکن ہے۔ میں نے جدید انشورنس کو، جس میں سود سرایت کیے ہوئے ہے، ناجائز کہاہے۔ میں نے یہ نہیں لکھا ہے کہ سود کے بغیر انشورنس کی تنظیم ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے مقالے کی دوسری قسط میں مزید وضاحت کے ساتھ لکھا ہے
’’واضح رہے کہ ہم انشورنس کی کسی مخصوص شکل کو جسے دور جدید میں انشورنس کمپنیوں نے عملاً اختیارکررکھا ہو، سامنے رکھ کر گفتگو نہیں کررہے ہیں۔ ہمارے پیش نظر وہ بنیادی اصول اوراس پر مبنی طریقہ انشورنس کی سادہ شکل ہے جس کا تعارف اوپر کرایاگیا ہے۔ حقیقی اہمیت اسی کی ہے۔ کیوں کہ اگر خود یہ طریقہ دراصل قمار سے پاک ہے تو اس کی مروجہ شکلوں میں جو قمارسے آلودہ ہوگئی ہوں، اصلاح وترمیم ہوسکتی ہے اورنہ ہوسکے تو اسے ترک کیاجاسکتا ہے۔‘‘ (جولائی ۱۹۷۲ء،ص ۵۵۔۵۶)
وہ اس سے زیادہ اور کیا وضاحت کرتے؟ میں نے موجودہ رائج انشورنس کو ناجائز کہا ہے اور انہوں نے محنت کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی نظام معیشت میں شرعی خرابیوں سے پاک انشورنس کی تنظیم کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ شرعی خرابیوں سے پاک انشورنس کی تنظیم ہوجائے تومیں اسے ناجائز کیوں کہوں گا؟ (ستمبر۱۹۷۲ء،ج۵۰،ش۳)