جواب
انعامی بانڈز کے معاملے میں صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر وثیقہ دار کو اس کی دی ہوئی رقم پر فرداً فرداً سود دیا جاتا تھا،مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کرکے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے ’’انعامات‘‘ کی شکل میں دیا جاتا ہے ،اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ’’انعامات‘‘کن کو دیے جائیں ، قرعہ اندازی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔پہلے ہر وثیقہ دار کو سود کا لالچ دے کراس سے قرض لیا جاتا تھا۔اب اس کے بجاے ہر ایک کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ شاید ہزاروں روپے کا’’انعام‘‘ تیرے ہی نام نکل آئے،اس لیے قسمت آزمائی کرلے۔
یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے اور روح قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے وہ اوّلاً اپنا روپیا جان بوجھ کر ایسے کام میں قرضے کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے۔ ثانیاً جس کے نام پر ’’انعام‘‘نکلتا ہے،اسے دراصل وہ سود اکٹھا ہوکر ملتا ہے جو عام سودی معاملات میں فرداًفرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا تھا۔ثالثاً جو شخص بھی یہ وثیقے خریدتا ہے ،وہ مجرد قرض نہیں دیتا بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زائد’’انعام‘‘ملے گا، اور یہی لالچ دے کر قرض لینے والا اس کو قرض دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں نیت سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔رابعاً جمع شدہ سود کی وہ رقم جو ب صورت’’انعام‘‘ دی جاتی ہے،اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام ’’انعامات‘‘ نکلا کرتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیا ایک انعام دار کو مل جاتا ہے ۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقم قرض نہیں ماری جاتی بلکہ صرف وہ سود، جو سودی کاروبار کے عام قاعدے کے مطابق ہر دائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر ملا کرتا ہے، انھیں نہیں ملتا،بلکہ قرعے کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سود ایک یا چند آدمیوں تک اس کے پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بِنا پر یہ بعینہٖ قمار تو نہیں ہے مگر اس میں روح قمار ضرور موجود ہے۔
(ترجمان القرآن،جنوری ۱۹۶۳ء)