آد م علیہ السلام کاظلم

نافرمانی کی روک تھام کے لیے سزا کی ضرورت اورانتباہ سے کسی کوانکار نہیں ، مگر سزا سے بچنے کے لیے سزا کی نوعیت سمجھ سے بالاتر نہ ہو، ورنہ سزاکی نوعیت کاابہام نافرمانی کی طرف جھکاؤ کومہمیز کرسکتاہے۔ بائبل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کو ممنوعہ درخت سے دورر کھنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ جب وہ ممنوعہ پھل کھائیں گے تو یقینی طورپر موت سے دوچار ہوں گے۔ اس سزا میں ابہام ہے۔ آدم علیہ السلام موت سے اس وقت ڈریں گے جب انھیں اس کی سختی کاتجربہ ہویاوہ موت کے مناظر دیکھ چکے ہوں ۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام موت کے مفہوم سے بہ خوبی واقف تھے۔ قرآن میں سزا یوں بتائی گئی ہے: فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ (البقرۃ۳۵:) ’’ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘ اورتوبہ کی دعا میں آدم علیہ السلام یوں کہتے ہیں : رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا (الاعراف: ۲۳ ) ’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ ظلم اورظالم جیسے تصورات سے حضرت آدم علیہ السلام کب اور کس طرح واقف ہوئے؟ اوراس کے عواقب کا مؤثر ادراک انھیں کیسے حاصل ہوا؟ کیاعلم الاسماء میں ان تصورات کو داخل سمجھا جائے؟
جواب

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اورانہیں زندگی گزارنے کاپوراطریقہ الہام کردیا۔ کیاحق ہے اور کیاناحق ؟ اللہ تعالیٰ کے اوامر کیاہیں اور نواہی کیاہیں ؟ کن کاموں سے اس کی خوش نودی حاصل کی جاسکتی ہے اور کون سے کام اس کے غضب کوبھڑکاتے ہیں ؟ یہ تمام باتیں کھول کھول کر بتادی گئیں ۔ اسی کوعلم الاسماء (البقرۃ: ۳۱) سے تعبیر کیاگیاہے اور اسی کو فطرۃ اللہ (الروم۳۰:) کہاگیا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اورحوا کو جنت میں بسایا گیا اوروہاں کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی، البتہ ایک مخصوص درخت کا پھل خانے سے منع کردیاگیا اور کہاگیا کہ اگر ایسا کروگے تو تم ظلم کرنے والے ہوگے۔ ظلم کی حقیقت یہ ہے: وضع الشئی فی غیر موضعہٖ (کسی چیز کونامناسب جگہ رکھنا) یعنی جو کام کرنا چاہیے وہ نہ کیا جائے اور جو کام نہ کرنا چاہیے وہ کیاجائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کوایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے روکا گیا تھا، لیکن وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اسے کھابیٹھے ۔ اس طرح وہ اللہ کی نافرمانی کربیٹھے۔ یہی ظلم تھا۔ اسے ظلم سمجھنے کے لیے کسی گہرے فہم، طویل غوروخوض اور منطق وفلسفہ کی ضرورت نہ تھی۔ پھل کھاتے ہی جب اس کے عواقب ونتائج ظاہر ہوئے ، ان کے اعضائے ستر ایک دوسرے پر کھل گئے توانھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوااور وہ سمجھ گئے کہ وہ ظلم کر بیٹھے ہیں ۔ چنانچہ انہیں بارگار ِ الٰہی میں ندامت کا اظہارکرنے اور لغزش پر معانی مانگنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔