جواب
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اورانہیں زندگی گزارنے کاپوراطریقہ الہام کردیا۔ کیاحق ہے اور کیاناحق ؟ اللہ تعالیٰ کے اوامر کیاہیں اور نواہی کیاہیں ؟ کن کاموں سے اس کی خوش نودی حاصل کی جاسکتی ہے اور کون سے کام اس کے غضب کوبھڑکاتے ہیں ؟ یہ تمام باتیں کھول کھول کر بتادی گئیں ۔ اسی کوعلم الاسماء (البقرۃ: ۳۱) سے تعبیر کیاگیاہے اور اسی کو فطرۃ اللہ (الروم۳۰:) کہاگیا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اورحوا کو جنت میں بسایا گیا اوروہاں کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی، البتہ ایک مخصوص درخت کا پھل خانے سے منع کردیاگیا اور کہاگیا کہ اگر ایسا کروگے تو تم ظلم کرنے والے ہوگے۔ ظلم کی حقیقت یہ ہے: وضع الشئی فی غیر موضعہٖ (کسی چیز کونامناسب جگہ رکھنا) یعنی جو کام کرنا چاہیے وہ نہ کیا جائے اور جو کام نہ کرنا چاہیے وہ کیاجائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کوایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے روکا گیا تھا، لیکن وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اسے کھابیٹھے ۔ اس طرح وہ اللہ کی نافرمانی کربیٹھے۔ یہی ظلم تھا۔ اسے ظلم سمجھنے کے لیے کسی گہرے فہم، طویل غوروخوض اور منطق وفلسفہ کی ضرورت نہ تھی۔ پھل کھاتے ہی جب اس کے عواقب ونتائج ظاہر ہوئے ، ان کے اعضائے ستر ایک دوسرے پر کھل گئے توانھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوااور وہ سمجھ گئے کہ وہ ظلم کر بیٹھے ہیں ۔ چنانچہ انہیں بارگار ِ الٰہی میں ندامت کا اظہارکرنے اور لغزش پر معانی مانگنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔