آڈٹ افسروں کو پارٹیاں دینا

کیاایسے افسروں کو ٹی پارٹیاں دینا بھی رشوت میں شمار ہوگا جن کو حکومت کسی ایک فرد یا جماعت کے کام کی جانچ پڑتال کے لیے وقتی طور پر مقرر کرتی ہے؟ یہ لوگ تو غالباً اصطلاحی افسر کی حیثیت نہیں رکھتے، پھر ان کی خاطر ومدارات میں کیا حر ج ہے؟
جواب

]اس طرح کے سوالات کا[ جواب دینے سے پہلے اصولی طور یہ بات ذہن نشین کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم جو حلال وحرام اور جائز وناجائز کی تمیز پر زور دیتے ہیں اورلوگوں کو اپنی اخلاقی ذمہ داریاں سمجھنے اور انھیں ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتے ہیں ،اس سے ہماری غرض ہرگزیہ نہیں ہے کہ موجودہ نظامِ باطل کو ایک ایسی پرہیز گار رعایا فراہم کرکے دیں جو ان کے لیے کم سے کم حد تک وجہ پریشانی ہو۔درحقیقت اس نظامِ باطل کے طبعی اور لازمی ثمرات یہی ہیں کہ لوگ اخلاقی ذمہ داریوں سے بے پروا اوراپنی خواہشات وضروریات کو پورا کرنے میں قانو ن کی گرفت کے سوا ہر دوسری قید سے آزاد ہوں ۔ ملازموں کا رشوت خور اور خائن ہونا اور رعیت کا وسیع معنوں میں چور ہونا اس نظام کا لازمی نتیجہ ہے۔اس نظام نے انھی صفات کی تخم ریزی کی ہے اور یہ نظام اس کا مستحق ہے کہ اس کے لیے یہی ثمرات اس کی تخم ریزی کے نتیجے میں پیدا ہوں ۔ ظاہر ہے کہ خائنوں ، چوروں اور بداخلاق لوگوں کی قیادت میں پاکیزہ اخلا ق رکھنے والے لوگ تو پرورش نہیں پاسکتے۔
پس اخلاق کی گفتگو سے ہماری غرض یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان بدسیرت اور بدکردار کار فرمائوں کو ان کی کشت خبیث کے زہریلے ثمرات سے بچائیں اورصالح ثمرات ان کے لیے فراہم کریں ۔ہمیں جو کچھ فکر ہے وہ دراصل خود اپنے اخلاق اور اپنی سیرت وکردار کی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ اس نظام کے برے اثرات سے اپنے بھائیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو بچائیں اور ان کے اندر ان اعلیٰ درجے کے اخلاق کو نشو ونما دیں جن کی بدولت وہ اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں موجودہ بدعمل کارکنوں اور کارفرمائوں کی بہ نست صالح تر ٹھہریں اور اللّٰہ تعالیٰ دنیا کی قیادت کے لیے ان کی بہ نسبت اِن کو اہل ترقرار دے۔ اس غرض کے لیے ہم ان برائیوں سے بھی لوگوں کو بچنے کا مشورہ دیتے ہیں جن کا ارتکاب اگرچہ موجودہ نظام کے مقابلے میں کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ شاید بھلائی کی تعریف میں آسکتا ہے، مگر وہ بجاے خود اخلاق اور شریعت کی نگاہ میں مذموم ہیں ۔
اب میں [… جوا ب] عرض کرتا ہوں :
جہاں تک میں سمجھتا ہوں ،خواہ سرکاری ملازموں کے اپنے مستقل افسر ہوں یا کسی دوسرے محکمے کے لوگ ہوں جنھیں ان کے کام کی جانچ پڑتال وغیرہ کے لیے مقرر کیا جاتا ہے،ان کے ساتھ مخلصانہ محبت اور شخصی عقیدت وگرویدگی کا تعلق ان کے دلوں میں شاید ایک فی ہزار حالات میں بھی نہیں ہوتا۔ اگر ان سے مفاد وابستہ نہ ہوں تو غالباً کوئی شخص بھی ان کی خاطرو مدارات کا خیال تک نہ کرے۔ یہ دعوتیں اور ٹی پارٹیاں سب اس غرض سے ہوتی ہیں کہ ان کے ذریعے سے کوئی فائدہ، کوئی رعایت یا کم ازکم چشم پوشی حاصل کی جائے۔ اس لیے فی الحقیقت یہ بھی اسی طرح رشوت کی تعریف میں آتی ہے جس طرح عام اور معروف رشوت۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر اپنی اصولی توضیح میں بیان کیا ہے، موجودہ غیر اسلامی حکومت میں اس کے خلاف ہمیں جو کچھ بھی اعتراض ہے، اس بنیادپر ہے کہ ایسی پارٹیوں کے دینے اور قبول کرنے سے ہمارے اپنے بھائیوں میں ناجائز ذرائع سے کام نکالنے اورلوگوں سے ناجائز فائدے اُٹھانے کی بیماری پرورش پاتی ہے۔ ورنہ یہ سارانظام تو حرام سے بنتا، حرام کھاتا اور حرام ہی اُگلتا ہے۔ (ترجمان القرآن،مارچ،اپریل ۱۹۴۴ء)