جواب
اہلِ کتاب کی عورتوں سے مسلمان کانکاح جائز اور مسلمان عورتوں سے اہلِ کتاب کا نکاح ناجائز ہونے کی بنیاد کسی احساسِ برتری پر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نفسیاتی حقیقت پر مبنی ہے۔مرد بالعموم متاثر کم ہوتا ہے اور اثر زیادہ ڈالتا ہے۔عورت بالعموم متاثر زیادہ ہوتی ہے اور اثر کم ڈالتی ہے۔ ایک غیر مسلمہ اگر کسی مسلمان کے نکاح میں آئے تو اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ وہ اس مسلمان کو غیر مسلم بنالے گی، اور اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائے گی۔ لیکن ایک مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کے نکاح میں چلی جائے تو اس کے غیر مسلمہ ہوجانے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے اور اس بات کی توقع بہت کم ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اور اپنی اولاد کو مسلمان بناسکے گی۔ اسی لیے مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی لڑکیوں کا نکاح غیرمسلموں سے کریں ۔ البتہ اگر اہل کتاب میں سے کوئی شخص خود اپنی بیٹی مسلمان کو دینے پر راضی ہو تو مسلمان اس سے نکاح کرسکتا ہے۔لیکن قرآن میں جہاں اس چیز کی اجازت دی گئی ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم بیوی کی محبت میں مبتلا ہوکر تم نے ایمان کھو دیا تو تمھارا سب کیا کرایا برباد ہوجائے گا اور آخرت میں تم خسارے میں رہو گے۔نیز یہ اجازت ایسی ہے جس سے خاص ضرورتوں کے مواقع پر ہی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے جسے قبولِ عام حاصل ہو،بلکہ بعض حالات میں تو اس سے منع بھی کیاگیا ہے تاکہ مسلمانوں کی سوسائٹی میں غیر مسلم عناصر کے داخل ہونے سے کسی نامناسب اخلاقی اور اعتقادی حالت کا نشو ونما نہ ہوسکے۔ ( ترجما ن القرآن، نومبر،دسمبر ۱۹۴۴ء)