اہلِ کتاب کا ذبیحہ

شکاگو میں کافی مسلمان ہیں اور ’اسلامک سینٹر‘ تقریباً پچھلے پچیس تیس سال سے کام کررہاہے۔ جمعہ کی نماز میں وقت نہ ملنے کی وجہ سے بہت کم لوگ رہتے ہیں۔  لیکن اتوار کو ’اسلامک سینٹر‘ میں کافی لوگ جمع ہوتے ہیں اور وہ منظر بڑا روح افزا ہوتا ہے جب مختلف ممالک کے لوگ صرف خدا کے نام پر ایک دوسرے سے بھائیوں کی طرح ملتے ہیں اور دوسری کوئی چیز ہم لوگوں میں مشترک نہیں ہوتی۔ بہرحال مسلم سوسائٹی کے لیے بہت اچھی فضا تیارہورہی ہے۔  نومسلموں کا جو گروہ یہاں پر پیدا ہورہاہے ان پراب تک احمدیہ فرقے کا زیادہ اثر ہے کیوں کہ سب سے پہلے احمدیہ فرقے کے لوگوں نے یہاں تبلیغ کاکام شروع کیا تھا۔لیکن اب آہستہ آہستہ قرآن کو سمجھنے کی وجہ سے ان کے خیالات درست ہورہے ہیں۔  یہاں پر اکثر لوگوں کے پاس لائبریری میں مولانا مودودی کی تمام کتابیں موجود ہیں۔ میں چھٹی کے دن کوئی نہ کوئی کتاب لے آتاہوں۔

یہاں پر ہم لوگوں میں جو مسئلہ اکثر زیر بحث آتا ہے وہ ذبیحے کامسئلہ ہے۔ یہاں کے تمام عرب دوست سورۃ الانعام کا جو ترجمہ کرتے ہیں اور جو تفسیر بیان کرتے ہیں اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اللہ کے نام کے بغیر ذبح کیا ہوا گوشت حرام ہے۔ کئی لوگوں نے الازہرسے فتویٰ منگوایا تھا۔ وہ لوگ (علماء الازہر) بھی یہی لکھتے ہیں کہ اگر جانور کو غیراللہ کے نام پر ذبح نہ کیاگیا ہوتو وہ جائز ہے اور چوں کہ یہاں گوشت کی انڈسٹری صرف منافع کی بنیاد پر چلتی ہے اس لیے غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ گوشت کھاتے وقت اگر بسم اللہ کہہ لیا جائے تو کافی ہے۔یہودیوں کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا گوشت توبالکل جائز سمجھتے ہیں اور یہ گوشت یہودیوں کی دکانوں میں آسانی سے مل جاتاہے۔

صرف ہم ہندوستان اورپاکستان کے معدودے چند لوگ ہیں جو اب تک مارکیٹ کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔  لیکن کبھی کبھی مجھے یہ خیال آنے لگتا ہے کہ کہیں اسلام دوسروں کے لیے ’مشکل ‘ بناکر تونہیں پیش کررہاہوں جس کے لیے کل خدا کے حضور مجھے شرمندہ ہونا پڑے۔ورنہ مجھے اپنی مشکلات کی کوئی پروانہیں ہے۔ اسٹل واٹر میں چھ ماہ سبزی کھاکر رہاہوں۔ اس کے بعد اپنے ہاتھ سے ایک دنبہ ذبح کرکے فریزر میں رکھوادیاتھا جوتین ماہ تک کام آتا رہا۔ آپ اس تعلق سے ضرور احادیث کا حوالہ بھیجوائیے تاکہ مجھے اطمینان ہواور میں دوسروں کو بھی قائل کرسکوں۔

جواب

اپنے خط میں آپ نے ایک شرعی حکم کے لیے مشکلات برداشت کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے اور عملاً ناجائز ذبیحے سے پرہیز کی جوکیفیت لکھی ہے وہ بڑی قابل قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس عزم اور اس عمل پرقائم رکھے۔

آپ نے جس مسئلہ پراطمینان حاصل کرنے کے لیے چند حدیثوں کا حوالہ طلب کیا ہے۔ اس مسئلہ پرمولانا مودودی نے ترجمان القرآن اپریل ۱۹۵۹ء میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور اب ان کا وہ مقالہ تفہیمات حصہ سوم میں شائع ہوگیا ہے۔آپ نے لکھا ہے کہ وہاں لائبریریوں میں مولانا مودودی کی تمام کتابیں موجود ہیں۔  اگر تفہیمات حصہ سوم بھی وہاں پہنچ چکا ہوتواس کا ضرور مطالعہ کیجیے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ کو اطمینان حاصل ہوجائےگا۔آپ نے جن حالات میں یہ خط لکھا ہے انھیں حالات میں  مولانا مودودی کو ایک پاکستانی طالب علم نے لندن سے خط لکھا تھا اور علمائے عراق کے دوفتوے بھی بھیجے تھے جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اہل کتاب کے ذبیحے ہر حال میں حلال ہیں وہ ان پر بسم اللہ پڑھیں یا نہ پڑھیں اور جانور ہاتھ سے ذبح کیے گئے ہوں یا مشین سے کاٹ دیے گئے ہوں۔ علمائے عراق نے جن دلائل سے علت ثابت کی ہے علمائے ازہر نے بھی غالباً وہی دلائل دیے ہوں گے۔ مولانا مودودی نے ان دلائل کا تسلی بخش جواب دیا ہے اوراس سلسلے کی تمام آیات واحادیث کو جمع کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ شافعی علما کا فتویٰ اور ان کی رائے اس مسئلہ میں صحیح نہیں ہے۔

اس مسئلہ پر جناب مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی مقالہ لکھا ہے جو ’بینات‘ کراچی میں شائع ہواتھا۔ ان مقالوں کی تفصیلات کو یہاں نقل کرنا دشوارہے۔ اس حقیر کی رائے بھی یہی ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جو حلال جانور تسمیہ کے بغیر مشین سے کاٹ دیے جاتے ہیں ان کا گوشت حرام ہوجاتا ہے۔

آپ کے عرب دوست سورۂ انعام کی ذبیحے سے متعلق آیات کی جو تفسیر بیان کرتے ہیں وہ صرف انھیں لوگوں کو مطمئن کرسکتی ہے، جو بہرحال اہل کتاب کے ذبیحے کو حلال کرنے کے خواہش مند ہوں۔

یہودیوں کی دکان سے آپ گوشت خریدکرکھاسکتےہیں۔  اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ اب بھی اللہ کا نام لے کر جانور ذبح کرتے ہیں۔      (اگست ۱۹۶۶ء،ج۳۷،ش۲)