جواب
آپ مسائل دینی میں اختلافات کو دیکھ کر گھبرا اُٹھے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ اختلافات نہ ہوتے اگر صرف اہل بیت کے علم پر اکتفا کرلیا جاتا۔حالاں کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں ۔ نہ اختلافات کوئی گھبرانے کی چیز ہیں اور نہ اہل بیت کے متبعین ہی اختلاف سے بچ سکے ہیں ۔آ پ اگر حضرات شیعہ کے مختلف فرقوں کے عقائد اور ان کے فقہی مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ ان کے ہاں اس سے زیادہ اختلافات ہیں جتنے اہل سنت میں پائے جاتے ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک اپنے مسلک کا ماخذ اہل بیت ہی کے علم کو قرار دیتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جس دین کو کروڑوں انسان اختیار کریں اور جس کے مآخذ کا ہزاروں لاکھوں انسان مطالعہ کرکے غور وفکر کریں ،اس کی نصوص کی تعبیر اور احکام کی تفصیل اور جزئیات کی تحقیق میں کامل اتفاق کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے۔اختلاف تو ایسی صورت میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کے رونما ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن ان بے شماراختلافات کے اندر ایک جوہری وحدت ہوتی ہے،اور وہ ان اساسی عقائد واُصول اور ان بڑے بڑے احکام کی بنیاد پر ہوتی ہے جن میں سب متفق پائے جاتے ہیں ۔اگر لوگ اصل اہمیت اس بِنائے وحدت کودیں اور جزوی اختلافات کو اپنی جگہ پر رکھیں تو کوئی قباحت واقع نہیں ہوتی۔ مگر جب لوگوں کے لیے اصل اہمیت ان جزوی اُمور کی ہوجاتی ہے جن میں وہ آپس میں مختلف ہیں ،اور بِنائے وحدت کو وہ خفیف سمجھنے لگتے ہیں تو پھر تفرقہ رونما ہوتا ہے۔
(ترجمان القرآن، جون،جولائی۱۹۵۲ء)