جواب
اعمال کے جزو ایمان ہونے یا نہ ہونے کی بحث کو خواہ مخواہ اُلجھا دیا گیا ہے،ورنہ بات بجاے خودصاف ہے۔اس میں ایک جہت وہ ہے جو امام ابو حنیفہؒ نے اختیار کی ہے اوروہ بجاے خود حق ہے۔مگر اعتراض کرنے والوں نے اس جہت کو نظرانداز کرکے دوسری جہت سے اس پر اعتراض کردیا۔ اسی طرح اس مسئلے کی ایک دوسری جہت وہ ہے جو امام بخاریؒ وغیر ہم نے اختیار کی اور وہ بھی برحق ہے،مگر رد کرنے والوں نے ایک مختلف جہت سے اس کو رد کرنا شروع کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمان اپنی اصل کے اعتبار سے شہادت قلب اور تصدیق ذہنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔عمل اس لفظ کے مفہوم میں بداہتاً شامل نہیں ہے۔آپ خود سوچیے کہ جب کوئی شخص کہتا کہ’’میں نے فلاں بات مان لی‘‘، یا ’’میں اس کا قائل ہو گیا‘‘،یا’’میں اس کی صداقت پر گواہ ہوں ‘‘ تو سننے والا ان الفاظ سے کیا سمجھتا ہے؟کیا محض عقیدہ واظہار؟ یا اس کے ساتھ کوئی عمل بھی؟ظاہر ہے کہ یہ الفاظ صرف عقیدہ وخیال کے اظہار کے لیے بولے جاتے ہیں ، اور سننے والا یہ الفاظ سن کر بس اتنا ہی سمجھتا ہے کہ آدمی کے خیالات میں تبدیلی آگئی ہے۔ایمان کی یہی حقیقت قرآن وحدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۰ۭ (البقرہ:۲۸۵) ’’رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسولؐ کے ماننے والے ہیں ۔‘‘کی تفسیر خود یوں فرماتا ہے کہ
كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۰ۣ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۰ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۰ۤۡ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ (البقرہ:۲۸۵)
’’یہ سب اللّٰہ اوراس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللّٰہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘
اس تفسیر کی رُوسے ایمان کی کوئی حقیقت مان لینے اور قائل ہوجانے کے سوا نہیں ہے۔ اور نبی ﷺ،حضرت جبریلؑ کے سوال فَاَخْبِرْنیِ عَنِ الْاِیْمَانِ کے جواب میں فرماتے ہیں : اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُوْمِنَ بِاْلَقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ۔({ FR 1826 })
یہ تفسیر نبوی بھی ایما ن کے معنی’’مان لینے‘‘ ہی کے بتا رہی ہے نہ کہ اس کے ساتھ کچھ کرنے کے بھی۔اسی بِنا پر یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا قائل ہوجانے کے بعد اچانک کسی حادثے کا شکار ہوجائے،قبل اس کے کہ وہ نماز پڑھے یا روزہ رکھے یا کوئی عمل اسلام پر کرسکے، تو وہ مومن مرے گا نہ کہ کافر۔
یہ اس مسئلے کی ایک جہت ہے، اور اس کے برحق ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ اب دوسری جہت لیجیے۔جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میں فلاں بات کو مان گیا،تو آپ فطرتاً یہ توقع کرتے ہیں کہ اب اس کے عمل اور برتائو میں اس مان لینے کے آثار ونتائج ظاہر ہوں گے۔ ہر شخص کی عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک بات کو مان لینے کے جو لازمی آثار ونتائج ہیں ،وہ مان لینے والے کے عمل اور برتائومیں ظاہر ہوں ۔ حتیٰ کہ اگر وہ ظاہر نہ ہوں ، یا ایسے آثار ظاہر ہوں جو عقلاً نہ ماننے ہی کے آثار ہوسکتے ہوں ،تو ہر دیکھنے والا یہی سمجھے گا کہ اس شخص نے درحقیقت وہ بات نہیں مانی ہے جس کے ماننے کا وہ دعویٰ کررہا ہے۔اور صرف اتنا ہی نہیں ، بلکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ماننے اور منوانے کا سارا کام جو کیا جاتا ہے،اس سے مقصود محض مان لینا اور منوالینا ہی نہیں ہوتا بلکہ منوانے والا اسی لیے کچھ باتیں منواتا ہے کہ اس کے بعد ماننے والا اس ماننے کے عملی تقاضے پورے کرے، اور ماننے والا جب ماننے کا اقرار واعلان کرتا ہے تو ہر صاحب عقل اس کا مطلب یہی لیتا ہے کہ وہ اب اس ماننے کے تقاضے پورے کرنا چاہتا ہے۔مثلاً اگر آپ کسی شخص کو شراب کی برائی کا قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ عملاًشراب نوشی سے اجتناب کرے،نہ اس لیے کہ وہ بس شراب کی برائی کا قائل ہوجائے۔ اور جب وہ اس کا اقرار کرتا ہے کہ واقعی شراب بُری چیزہے،تو ہر سننے والا اس کا مقصد یہی سمجھتا ہے اور یہی اس سے توقع رکھتاہے کہ وہ شراب سے اجتنا ب کرے گا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اس اقرار کے بعد اسے شراب پیتے دیکھ لے تو فوراً یہ راے قائم کرتا ہے کہ وہ اپنے اقرار سے پھر گیا۔
یہی معاملہ اﷲ تعالیٰ کے دین کا بھی ہے۔اﷲ اور رسول نے لوگوں سے بعض حقیقتیں منوانے کی جو کوشش کی ہے،اس سے مقصودصرف یہی نہیں ہے کہ وہ بس انھیں مان لیں ،بلکہ لازماًیہ بھی مقصود ہے کہ ان کے اخلاق میں ،ان کے اعمال میں ،اُن کے برتائو میں ، اور ان کی پوری انفرادی واجتماعی زندگی میں وہ آثار ونتائج ظاہر ہوں جو اس مان لینے کے لازمی آثار ونتائج ہیں ۔ اﷲ نے اپنے کلام پاک میں اور رسول اﷲﷺ نے اپنے فرمودات میں صاف صاف ان آثار ونتائج کو بیان بھی کردیا ہے جو دعوت ایمان سے مطلوب ومقصود ہیں اورلازمۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں ۔پھر انھوں نے صرف ان آثار مطلوبہ کے بیان ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ بعض آثار کے متعلق بالفاظ صریح یہ فرما دیا ہے کہ جن لوگوں میں وہ ظاہر نہ ہوں ،یا ان کے برعکس آثار ظاہر ہوں ،وہ مومن نہیں ہیں ۔ قرآن اور حدیث دونوں اس کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں جن سے کوئی صاحب علم آدمی ناواقف نہیں ہے اور ان پر نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو منفک نہیں ہوسکتا۔چاہے اس کی یہ تعبیر لفظاً صحیح نہ ہو کہ’’عمل جزوایمان ہے‘‘مگر بہرحال لازمۂ ایمان تو ضرور ہے۔
بلاشبہہ محتاط فقہا نے مجرد ترک عمل پر،جب کہ اس کے ساتھ کوئی صریح علامت کفر موجود نہ ہو، تکفیر سے احتراز کیا ہے۔مگر اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ کسی مدعی اسلام کا بے عمل ہونا( یعنی اس کا عملاً غیر مسلمانہ زندگی بسر کرنا)جس طرح اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہو،اسی طرح اس بات کا بھی احتمال رکھتا ہے کہ وہ غفلت میں مبتلا ہو یا اس کی سیرت میں ضعف ہو۔ان دونوں احتمالات میں سے کسی ایک کو متعین کرناظاہر میں انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس کا کوئی صریح ثبوت نہ مل جائے۔لہٰذا مجرد بے عملی کی بنا پر تکفیر کر بیٹھنا خلاف احتیاط ہے۔البتہ اﷲ تعالیٰ، جو علیم بذات الصدور ہے،اس بات کو جانتا ہے کہ کس شخص کی بے عملی عدم ایمان کی بنا پر ہے، اور کس کی بے عملی ضعف اخلاق یا غفلت کی بنا پر۔ جس شخص کی بے عملی درحقیقت ایمان کے فقدان پر مبنی ہوگی وہ کافر تو ضرور ہوگا، مگر اس کا معلوم کرنا صرف خداوند عالم الغیب کا کام ہے۔دنیا کے مفتی اس کو نہیں جان سکتے،اِلاّیہ کہ کوئی صریح قرینہ ایسا حکم لگانے کے لیے موجود ہو۔
یہ ہے اس معاملے کی اصل حقیقت۔جن لوگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا ہے،وہ عجیب قسم کی افراط وتفریط میں مبتلا ہیں ۔ کوئی تو بے عمل مسلمانوں کو بے تکلف کافر کہہ بیٹھتا ہے، حالاں کہ بے عملی کے دوسرے اسباب بھی ہوسکتے ہیں اور انھی کے ہونے کا بالعموم قوی احتما ل پایا جاتا ہے۔ اور کوئی تمام بے عمل مسلمانوں کو ایمان ہی کا نہیں بلکہ جنت کا مژدہ سنا رہا ہے،حالاں کہ یہ معصیت کی کھلی کھلی ہمت افزائی ہے جس کی جواب دہی سے ہر خدا ترس آدمی کو ڈرنا چاہیے۔(ترجمان القرآن، فروری۱۹۵۳ء)