ایمان بالقدر اور مخالفین کی بد دیانتی

خدا کے دین کی اشاعت کا جو کام اپنی توفیق کے مطابق ہم لوگ سرانجام دے رہے ہیں ،اس کے پھیلنے میں آپ کی بعض کتابیں مثلاً دینیات، خطبات وغیرہ بہت مدد دے رہی ہیں اور ان کی مانگ برابر بڑھ رہی ہے۔لیکن دوسری طرف یہ کتابیں مخالفین کرام کا خاص ہدف بھی بنی ہوئی ہیں ۔ان کی بعض عبارات کو چھانٹ چھانٹ کر غلط فہمی پھیلانے اور ہمیں بدنام کرنے کی مہم جاری ہے۔ یہاں تک کہ دنیا پرست مفتیان کرام ان عبارات کی بنیاد پر ہمارے خلاف فتواے کفر تک جاری کرچکے ہیں ۔ان حالات میں گفتگوئوں کا محور تمام تر آپ کی چند خاص عبارات بن گئی ہیں ۔ان میں سے ایک حسب ذیل ہے: رسالۂ دینیات باب چہارم کے آخر میں آپ نے لکھا ہے کہ’’یہ پانچ عقیدے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ان پانچوں کا خلاصہ صرف ایک کلمے میں آجاتا ہے۔‘‘پھر باب پنجم میں درج ہے کہ’’پچھلے باب میں تم کو بتایا گیا ہے کہ حضرت محمدؐ نے پانچ اُمور پر ایمان لانے کی تعلیم دی ہے۔‘‘حالاں کہ حدیث صحیح میں وَالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ کو ملا کر ایمان کو چھ چیزوں پر مشتمل قرار دیا گیا ہے نہ کہ پانچ پر۔اس سے معترضین نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ’’فرقہ مودودیہ تو قدر پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ لوگ خیر وشر کے خد اکی طرف سے ہونے کے منکر ہیں ۔یہ وہی قدریہ ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ وہ اس امت کے آتش پرست ہیں ۔‘‘اس استدلال کی بنیاد پر صرف جھوٹی الزام تراشی ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ ہمیں صریحاً کافر کہا جاتا ہے اور ہم پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے ہیں ۔ بعض جگہ جماعت اسلامی کے ہم دردوں کو مسجدوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ علماے سوء عوام میں وعظ کہتے پھرتے ہیں کہ’’لوگو! خبردار! یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمارا ایمان چوری کیا ہے،انھیں جتنی اذیت دو کم ہے۔‘‘ اس اعتراض کے جواب میں ہم نے واضح کیا ہے کہ ہمارا ایمان قدر پرہے۔لیکن رسالۂ دینیات میں ایمان صرف پانچ چیزوں پر مشتمل اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ قدر پر ایمان ایمان باﷲ کے اندر شامل ہے۔ اس جواب کی تائید میں ہم’’مسئلۂ جبر وقدر‘‘کو پیش کرتے ہیں ، مگر معترضین آپ کے جواب پر مصر ہیں ۔
جواب

آپ کو مالا بار میں جس قسم کی مخالفتوں سے سابقہ پیش آرہا ہے اس سے بدتر اور اس سے بہت زیادہ گھٹیا درجے کی مخالفتوں سے ہم یہاں دوچار ہیں ۔بہرحال ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ صبر کے ساتھ اﷲ کی رضا کے لیے کام کرتے چلے جائیں اور اپنی حد تک صراط مستقیم پر گام زن رہیں ۔جو لوگ جس غرض اور جس نیت سے بھی ہماری مخالفت چاہیں کریں ، آخر کار فیصلہ اس خدا کو کرنا ہے جو ہماری نیت و عمل سے بھی واقف ہے اور ان کی نیت وعمل سے بھی!
رسالۂ دینیات باب چہارم کے آخر میں جہاں یہ فقرہ لکھا ہے کہ’’یہ پانچ عقیدے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے‘‘ وہاں میری طرف سے یہ حاشیہ لکھ دیا جائے:
میں نے یہاں ایمانیات کی تعداد بتائی ہے۔یہ شمار قرآن مجید کے ارشاد اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ ... (البقرہ:۲۸۵) پر مبنی ہے اور وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ … (النساء:۱۳۶ ) پر مبنی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حدیث میں وَالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ کو بھی ایمانیات میں شمار کیا گیا ہے، اور اس طرح بنیادی عقائد پانچ کے بجاے چھ قرار پاتے ہیں ۔ لیکن درحقیقت ایمان بالقدر ایمان باﷲ کا ایک جز ہے اور قرآ ن میں اس عقیدے کو اسی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔اس لیے میں نے بھی اس عقیدے کو عقیدۂ توحید کی تشریح میں داخل کر دیا ہے۔بالکل اسی طرح بعض احادیث میں جنت اور دوزخ اور صراط اور میزان کو الگ الگ عقائد کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔مگر درحقیقت یہ سب ایمان بالآخرت کے اجزا ہیں ۔
مجھے یہ معلوم کرکے افسوس ہوا کہ مالا بار میں بعض علما نے میری ان عبارتوں کو غلط معنی پہنا کر خواہ مخواہ یہ مشہور کرنا شروع کردیا ہے کہ میں قدر کا منکر ہوں ۔حالاں کہ اگر وہ اسی کتاب کے اسی باب میں وہ بحث پڑھ لیتے جو ’’انسان کی زندگی پر عقیدۂ توحید کا اثر‘‘ کے زیر عنوان کی گئی ہے۔ تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ میں تقدیر کی بھلائی اور برائی کو اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے مانتا ہوں ۔یہ بات بڑی افسوس ناک ہے کہ لوگ تحقیق کے بغیر دوسروں کی طرف غلط عقیدے منسوب کرتے اور زبردستی ان کو گمراہ ٹھیرانے کی کوشش کرتے ہیں ،اور ذرا نہیں ڈرتے کہ اس طرح کے بہتان لگانے پر وہ اﷲ کے ہاں ما ٔخوذ ہوں گے۔
(ترجمان القرآن، مارچ تا مئی۱۹۵۱ء)