آپ سے ایک تجارتی اسکیم کے سلسلے میں شرعی نقطۂ نظردریافت طلب ہے۔
ایک کمپنی قسطوں پرمختلف گھریلو اشیا،فرنیچر،بجلی کے گھریلواستعمال کے سامان وغیرہ فروخت کرتی رہی ہے۔ اب اس نے ایک نئی اسکیم پیش کی ہے۔ مختصر ا ًاس اسکیم کے اہم اجزا مندرجہ ذیل ہیں۔
* بنیادی طورپر یہ رقم بچت اسکیم ہے۔
* جو کوئی بھی ایک مخصوص رقم ایک خاص مدت کے لیے اس کمپنی میں بچت کروائے گا اس کو اس رقم کے کم وبیش قیمت کے مطابق کوئی چیز جو پسند کرے، فوراً ہی دی جائے گی۔ کمپنی کہتی ہے کہ یہ مفت ہے بطورانعام ....اور اس خاص مدت کے اختتام پربچت کرنے والے کو اس کی رقم بعینہ لوٹادی جائے گی۔ بچت کی مدت اور مبلغ رقم دی جانے والی چیزوں کے مطابق مختلف ہوتی ہیں اور یہ کمپنی نے متعین کررکھا ہے۔
* بطورمثال دس ہزار روپے ۵سال کی مدت کے لیے بچت کروانے پرتقریباً نودس ہزارروپیوں کی مالیت کا فرج فوری ڈپازٹ کے وقت ہی مل جاتا ہے اور ۵سال بعد دس ہزارروپے بھی۔
اس کمپنی کی شاخیں بنگلور،مدراس،مدورائی اور تروندرم میں قائم ہیں۔ اس کی موجودہ اسکیم مسلم عوام وخواص میں خاصی مقبول رہی ہے۔
گزارش ہے کہ براہ کرم اس اسکیم پرشرعی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالیں تاکہ اس اسکیم کے تحت لین دین کی اباحت یا قباحت ظاہر ہوجائے۔
جواب
یہ آپ کے علم میں ہے کہ سود کی حرمت بہت شدید ہے۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ میں ربا اور ریبہ یعنی سود اورشبہ سود دونوں سے روک دیاگیا ہے۔
آپ نے جو اسکیم لکھی ہے اس میں قابل غور سوال یہ ہے کہ کمپنی کسی شخص کو دس ہزار کے بیس ہزار کہاں سے دیتی ہے؟ مثال کے طورپر دس ہزار روپے پانچ سال کی مدت کے لیے جمع کرنے پر نویا دس ہزار کا ریفریجریٹر فوراًدے دیتی ہے اور پانچ سال کے بعد دس ہزار روپے بھی واپس کردیتی ہے تووہ دس ہزار کے بیس ہزار دیتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ تم مجھے تین سال کی مدت کے لیے ایک ہزار روپے دواور میں انعام کے طورپر ایک سوروپے فوراً تم کودوں گا اور تین سال کے بعد ایک ہزار روپے بھی واپس کردوں گا۔ آپ خود غورکریں کہ ایک سو روپے پیشگی سود کے سو ا اور کیا ہوں گے۔ سود کا نام انعام رکھ دینے سے حقیقت تو نہیں بدلے گی۔یہی معاملہ اس تجارتی اسکیم کا ہے، جس کےبارے میں آپ نےدریافت کیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کمپنی پیشگی سود سامان کی شکل میں ادا کرتی ہے۔ اس میں کمپنی کا فائدہ یہ بھی ہے کہ دس ہزار کا جو سامان وہ دیتی ہے وہ فی الواقع دس ہزارسے کم کا ہوتا ہے۔ کمپنی نے حساب لگالیا ہے کہ دس ہزار سے پانچ سال میں وہ کتنا نفع کمائے گی۔ اسی نفع میں سے وہ انعام کےنام سے سوددیتی ہے۔ میں نے جہاں تک غورکیا ہے یہ تجارتی اسکیم شرعاً ناجائز ہے۔ (فروری ۱۹۸۴ء،ج۷۲،ش۲)