ریاض (سعودی عربیہ) سے ایک رفیق لکھتے ہیں
میں یہاں تمام نمازیں جماعت سے پڑھنے کی کوشش کرتاہوں، مگر عصر کی جماعت میں شرکت نہیں کرتا کیوں کہ وہ ایک مثل کے بعد ہی ہوجاتی ہے اور میں اب تک یہ جانتا ہوں کہ فقہ حنفی میں دومثل کے بعد عصر کاوقت شروع ہوتاہے۔ اس لیے میں عصر کی جماعت برابر ترک کررہا ہوں۔ لیکن ذہن مطمئن نہیں ہے۔ میں عمرہ کرنے گیا تھا تو حرم کی عظمت کے پیش نظر میں نے وہاں عصر کی نماز بھی جماعت سے پڑھ لی تھی۔اب آپ مجھے یہ بتائیے کہ کیا دومثل کا انتظار کرکے جماعت چھوڑدی جائے یا جماعت کا احترام کرکے ایک ہی مثل پر نماز پڑھنا شروع کردوں ؟
جواب
میرے نزدیک آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ بلاتکلف جماعت کے ساتھ نماز عصر ادا کرنا شروع کردیں، جماعت ترک نہ کریں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں بڑے شاگرد امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ایک ہی مثل کے قائل ہیں اور خود امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک قول، ایک مثل ہی کا منقول ہے۔ امام طحاوی، جو فقہ حنفی کے ایک ستون ہیں وہ بھی ایک مثل ہی کے قائل ہیں۔ وہ اپنی مختصر میں لکھتے ہیں
وَرَوَی الْحَسَنُ بن زِیَادِ اللوْلوْی وَغَیْرُہٗ رَحِمَھُمُ اللہُ عَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہٗ اَنَّ الظِّلَ اِذَا صَارَمِثْلَہٗ خَرَجَ وَقْتُھَا (اَیْ وَقْتُ صَلَوۃِ الظُھْرِ) وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدَ (رَحِمُھُمَا اللہُ) قَالَ اَبُوجَعْفَر وَبِقَوْلِھِمَانَأخُذُ۔
(مختصر الطحاوی صفحہ،۲۳)
’’حسن بن زیاداور دوسروں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ جب سایہ ایک مثل ہوجائے تونماز ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور یہی ابویوسف ومحمد رحمہااللہ کا قول ہے۔اور ابوجعفر(امام طحاوی) نے کہا کہ ہم انھیں دونوں کے قول کو اختیارکرتے ہیں۔ ‘‘
امام اعظم رحمہ اللہ کے ایک اور نمایاں شاگرد امام زفر بھی ایک ہی مثل کے قائل ہیں۔ علامہ محمد علاؤالدین صاحب درمختارنے فقہ حنفی کی متعدد مستند کتابوں کے حوالے نقل کیے ہیں کہ صاحبین ہی کا قول قابل اخذ ہے اوراس پر فتویٰ بھی دیاگیا ہے اور بہت سے شہروں میں احناف کا اس پر عمل بھی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایک مثل کے بعد نماز عصر پڑھ لینا فقہ حنفی کے خلاف بھی نہیں ہے۔البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نماز عصر دومثل کے بعد ادا کی جائے۔ لیکن مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اس احتیاط کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم اور واجب التعمیل ہے۔
(اکتوبر۱۹۶۹ء، ج ۴۳،ش۴)