ایک اہم مسئلے پرآپ کی رہ نمائی مطلوب ہے۔ امید ہے تفصیلی جواب عنایت فرمائیں گے۔
(۱) ایک فرم ہے ’آل ویل اڈورٹائزنگ کا رپوریشن‘ اس کا میں پارٹنرہوں (اس فرم میں میرا حصہ ۶۵فیصد ہے)۔اس فرم کے کاروبار کی نوعیت یہ ہے کہ مختلف مقامات پربڑے بڑے بورڈس جنہیں ہورڈنگس (Hordings)کہا جاتا ہے، نصب کیے جاتے ہیں اور انھیں مختلف کمپنیوں کو ماہانہ کرایے پر(ان کے مال کے اشتہار کے لیے ) دیا جاتا ہے۔ کرایے سے ہونے والی آمدنی میں سے ضروری اخراجات مثلاً پینٹنگ(Painting)، جگہ کا کرایہ،ٹیکس، آفس کے ماہانہ اخراجات اور پارٹنرس کے اخراجات نکالنے کے بعد جو رقم بچتی ہے اسے ہم نئے بورڈس لگانے پرخرچ کرتے رہے ہیں۔ نیزا کثر مواقع پر ہمارے پاس نئے بورڈس اوراس کے اسٹریکچرس (Structures)کا سامان بھی کئی ماہ تک رکا رہتاہے جو ہم وقتاً فوقتاً خریدکررکھتے ہیں۔
۲- اس کاروبار سے سالانہ انداز اً تیس چالیس ہزار کا فائدہ ہوتاہوگا جو کاروبار کی توسیع ہی میں لگایا جاتاہے۔
۳- ہمیں اس بات کا تواندازہ ہوتاہے کہ اس سال اتنا منافع ہواہے، مگر کاروبار کے ابھی ابتدائی مرحلے میں ہونے کی وجہ سے ہم متعین طورپر منافع الگ نہیں کرسکتے یعنی حساب لگاکر یہ معلوم نہیں کرسکتے کہ اتنے روپے اور پیسے منافع ہوا۔
۴- ہمارے لگے ہوئے بورڈس میں سے تقریباًدس تا بیس فی صد بورڈس خالی رہتے ہیں۔ ان سے ایسے موقعوں پرکسی طرح کی آمدنی نہیں ہوتی البتہ جگہ کا کرایہ ہمیں دینا پڑتا ہے۔
جومسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ اس کاروبار یا اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے یا نہیں ؟ اس سے متعلق اب تک جو باتیں معلوم ہوسکی ہیں ان سے یکسوئی نہیں ہوسکی۔ براہ کرم مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں حسب ذیل سوالات کے جوابات دے کر مشکورفرمائیں۔
(الف) کرایہ پرچلنے والی ہر چیزپر زکوٰۃ نہیں ہے۔ کیا ہمارا کاروبار بھی اسی کی تعریف میں آتا ہے ؟اگر آتا ہے تو جوآمدنی اندازاً ہمیں ہوتی ہے اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالنا صحیح ہے یا اس کے لیے کوئی اور شکل اختیار کرنی ہوگی؟
(ب) کیا یہ شکل صحیح ہوسکتی ہے کہ پورے Turnover(کرایوں سے ہونے والی کل آمدنی) پر جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ کا ہوتاہے کچھ فی صد (منافع کے تناسب کے مطابق) اس مقصد کے لیے مقرر کرکے نکال لیا جائے کیوں کہ متعین طورپر منافع الگ کرنا سردست مشکل ہے اور ہم کوشش کے باوجود اس پر ابھی قابو نہیں پاسکے ہیں۔ یا پھر اس کے علاوہ جو شکل صحیح ہووہ لکھیں۔
(ج) زکوٰۃکے مسئلے میں ایک صاحب نے جو ہمارے پارٹنرہیں، یہ الجھن پیش فرمائی ہے کہ مسئلہ یہ بیان کیاجاتاہے کہ کرایہ پرچلنے والی چیزوں پرزکوٰۃ نہیں ہے۔ نیز یہ بات کہ ایک آدمی کے پاس لاکھوں روپے کے موتی اور جواہرات ہوں تواس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے اور تیسری بات یہ کہ اگر کسی کی ہزاروں روپے کی آمدنی ہو اور وہ سال گزرنے سے پہلے اس آمدنی سے کوئی مکان خریدلے یا اور کوئی کرایہ پرچلنے والی چیزخریدلے اور اپنے پاس سال بھر تک رقم رکنے ہی نہ دے جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہو تو اس آمدنی پر بھی جو کافی بڑی ہوتی ہےزکوٰۃ نہیں ہے۔اس کے مقابلے میں کسی کے پاس بقدرنصاب مال تجارت ہو یا زیورات ہوں تو اس پر زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے۔یہ بات مبنی برانصاف معلوم نہیں ہوتی۔ دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی اسپرٹ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے دولت کی تقسیم ہواور سوسائٹی کے غریب لوگوں تک بھی دولت پہنچے۔ اگر زکوٰۃ کو چند مخصوص چیزوں اورذرائع تک محدود کردیاجائے تویہ بات زکوٰۃ کی اسپرٹ کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ تیسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر زکوٰۃ کی اسپرٹ کچھ اور ہے اور وہ نہیں ہے جو میں نے سمجھی ہے تو آپ کتاب وسنت کی روشنی میں واضح فرمائیں، کیوں کہ جب تک زکوٰۃ کی اصولی حیثیت متعین نہیں ہوجاتی اس وقت تک اس سے متعلق مسائل کو سمجھنے میں الجھنیں پیش آتی رہیں گی۔
آخرمیں پھر آپ سے گزارش ہے کہ تمام سوالات کا تفصیلی جواب جلد عنایت فرمائیں۔
جواب
سب سے پہلے یہ عرض ہے کہ میری ایک مختصر کتاب ’عشروزکوٰۃاور سود کے چند مسائل‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے،کیا آپ نے اس کا مطالعہ کیا ہے؟ آپ کو اورآپ کے رفیق کو جو الجھن پیش آرہی ہے اسی طرح کی الجھنوں کا جواب تفصیل سے اس میں موجود ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کامقصد بھی یہی تھا کہ یکساں سوالات کے مفصل جوابات، بار بار نہ لکھنے پڑیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ اس سے آپ کی الجھن دورہوگی اور اگر کوئی مزید الجھن اس سلسلے میں پیدا ہوتواس کو دریافت کیجیے تاکہ اس مسئلے میں کوئی گوشہ رہ گیا ہوتو اس کی مزید تفصیل کی جاسکے۔ اب میں آپ کے سوالات کے مختصر جوابات دیتاہوں۔
۱-میراجتنا بھی فقہی مطالعہ ہے اس کے پیش نظر آپ کا کاروبار اجارہ یعنی کرایے کا کاروبار ہے۔ تجارت کا کاروبار نہیں ہے۔ اجارہ اور تجارت میں جو فرق ہے وہ میں نے اپنی کتاب میں جس کا ذکر اوپر گزرا،واضح کردیاہے۔
۲- اس کاروبار سے جو نفع آپ کو حاصل ہوتا ہے اورسال گزرنے کے بعد اس نفع کی جو رقم آپ کے پاس موجود ہو، اسی پر ڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ دینا ہوگی، کل آمدنی پرزکوٰۃ عائد نہیں ہوگی، مختلف مدات پر جو اخراجات آپ کرچکے ہیں وہ زکوٰۃ سے خارج ہوجائیں گے۔
۳- شریعت نے جونصاب مقرر کیا ہے او رجو مقدار زکوٰۃ متعین کی ہے اس میں کم وبیش کرنے کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کل آمدنی پرکچھ فی صد زکوٰۃ نکالنے کی شکل صحیح نہیں ہے۔ اور جیسا کہ نمبر۲ میں لکھا جاچکا ہے،آپ کے معاملے میں شرعاً کل آمدنی پر زکوٰۃ عائد ہی نہیں ہوتی۔اگر اس وقت نفع کی پائی پائی کا حساب نہیں ہوسکتا تو پوری طرح اندازہ لگاکر جو نفع متعین ہواس پرزکوٰۃ ادا کیجیے۔ نمبر ۲میں، میں یہ بھی لکھ چکا کہ نفع کی جو رقم سال گزرنے کے بعد آپ کے پاس موجود ہو اسی پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ نفع کی جو رقم آپ سال گزرنے سے پہلے مزید بورڈس خرید نے پر لگادیتے ہیں اس پر زکوٰۃ نہیں دینا ہوگی۔
۴- آپ کے رفیق کو جوالجھن ہے اس کے لیے بھی میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ’عشروزکوٰۃ اور سود کے چند مسائل‘ کا مطالعہ کریں۔ اس میں سب سے پہلا مضمون ’زکوٰۃ کے چند اصولی احکام ‘ کےعنوان سے ہے وہ اس کا مطالعہ کریں۔ پھر ’کرایہ پر چلنے والے مکانات او ر سامان پر زکوٰۃ نہیں ہے‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو پڑھیں۔ اس کے بعد کوئی الجھن باقی رہے تو مجھے مطلع فرمائیں۔ میرے لیے یہ بہت دشوار ہے کہ جن باتوں کے مفصل جوابات میں شائع کرچکا ہوں، باربار انھیں نقل کرکے لوگوں کو بھیجوں۔ ویسے مختصراً چند باتوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرتاہوں
(الف)سب سے بنیادی،جوہری اوراصولی بات یہ ہے کہ زکوٰۃ اسلام کے چار ارکان میں سے ایک رکن اور عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پرفرض کی ہے۔اوراس کے آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ تشریح کی ہے کہ کس قسم کے مالوں پرزکوٰۃ عائد ہوگی؟ اور جن اقسام کے اموال پرزکوٰۃ عائد ہوگی ان میں سے ہر ایک کا نصاب کیا ہوگا اورمقدار زکوٰۃ کیا ہوگی اور کب وہ زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گی؟ ظاہر ہے کہ رسول خدا کی تشریح میں کوئی ایسی بنیادی چیز نہیں چھوٹ سکتی جو زکوٰۃ کی اسپرٹ کے لحاظ سے ہونی چاہیے تھی اور آپ نے اسے چھوڑدیاہو۔ جن اموال پرزکوٰۃ فرض ہے اور جن پر نہیں ہے اس کی مصلحتیں اور حکمتیں بیان کی جاسکتی ہیں لیکن اصل بات وہی ہے جواوپر لکھی گئی ہے۔
(ب) زکوٰۃ کے جو آٹھ مصارف خود اللہ تعالیٰ نے متعین کیے ہیں اور جن کا ذکر سورۂ توبہ آیت ۶۰ میں موجود ہے ان سے معلوم ہوتاہے کہ زکوٰۃ کی وہ اسپرٹ نہیں ہے جو آپ کے رفیق نے سمجھی ہے۔ بہتر ہوگاکہ مصارف زکوٰۃ پرتفہیم القرآن میں جو کچھ لکھاگیا ہے اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔ بے شک زکوٰۃ کا ایک مقصد غریبوں اورمحتاجوں کی مدد کرنا ہے۔ لیکن زکوٰۃ کا صرف یہی ایک مقصد نہیں ہے بلکہ اس کا ایک نمایاں مقصد یہ بھی ہے کہ مسلم سوسائٹی کے مختلف شعبوں اور اسلام کو سربلند کرنے اور سربلند رکھنے کے جو ضروری اخراجات ہیں وہ اس سے پورے ہوتے رہیں۔ چنانچہ مصارف زکوٰۃ میں سے زیادہ تر مصارف ایسے ہیں کہ زکوٰۃ کی رقم مال دار لوگوں تک بھی پہنچتی ہے اور پہنچ سکتی ہے(شریعت کی نظر میں مال داروہ ہے جو صاحب نصاب ہو)۔
دیکھیے زکوٰۃ کے مصارف میں ایک مصرف،محکمہ وصولی زکوٰۃ کے کارکنوں کو معاوضہ خدمت ادا کرنا ہے۔ زکوٰۃ وصول کرنے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اس کا حساب کتاب رکھنے والے اگر مال دار بھی ہوں تو ان کو ان کے کام کا معاوضہ، زکوٰۃ کی رقم سےدیا جائے گا۔
زکوٰۃ کا ایک مصرف، مولفتہ القلوب ہیں۔ یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔اگر ایسے لوگ اپنے قبیلے کے رئیس اور سردار بھی ہوں تو ان کو زکوٰۃ کی مدد سے مال دیا جائے گا۔ زکوٰۃ کا ایک مصرف غلام آزاد کرنا ہے۔غلام آزاد کرنا ہو یا اسیران جنگ کا فدیہ دینا ہو اس صور ت میں بھی عام طورسے زکوٰۃ کا مال جن لوگوں تک پہنچتا ہے وہ غریب اورمحتاج نہیں ہوتے۔زکوٰۃ کا ایک اور مصرف کسی کے تاوان یا قرض کی ادائیگی ہے۔ اس مصرف میں بھی زکوٰۃ کا مال جن لوگوں تک پہنچتا ہے وہ عام طورسے غریب اور محتاج نہیں ہوتے اور جن لوگوں کی طرف سے زکوٰۃ کا مال خرچ کیاجاتا ہے ان کا غریب اور محتاج ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔فرض کیجیے زید دوہزارروپے کا مقروض ہے اوراس کے پاس چارسو روپے موجود ہیں وہ اگرچہ خود صاحب نصاب ہے لیکن اپنا قرض ادا کرنے سے معذور ہے۔ اس کا قرض زکوٰۃ کی رقم سے ادا کیا گیا اور جس کو وہ رقم دی گئی ہے وہ بھی مال دار ہے۔اس صورت میں ان دونوں میں سے کوئی غریب اورمحتاج نہیں ہے۔ زکوٰۃ کا ایک اور مصرف مسافر ہے۔ اگر کوئی مال دار شخص ہنگامی طورپر سفر میں ضرورت مند ہوگیا ہوتو زکوٰۃ کا مال اس کو دیا جائے گا اور یہ ضروری نہیں کہ سفر میں وہ مال دار شخص فقیر یا مسکین ہی ہوگیا ہو وہ صاحب نصاب رہتے ہوئے بھی مستحق زکوٰۃ ہوسکتا ہے۔ فرض کیجیے اس کے پاس جو رقم بچ رہی ہے وہ ایک نصاب کے برابر تو ہے لیکن وہ اتنے میں اپنے وطن نہیں پہنچ سکتا تو اس کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ زکوٰۃ کا ایک اورمصرف ’فی سبیل اللہ ‘ہے۔ یہ مصرف اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے اور اس میں بہت سے حالات میں زکوٰۃ کا مال ایسے اشخاص تک پہنچتا ہے جو غریب اور محتاج نہیں ہوتے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے چھ مصارف ایسے ہیں جن میں فقیروں تک زکوٰۃ کا مال پہنچانا مقصود نہیں ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ زکوٰۃ کی اسپرٹ یہ ہے کہ ’غریبوں تک ہی دولت پہنچے‘ صحیح نہیں ہے۔ فقرااور مساکین، مصارف زکوٰۃ کا ایک جز ہیں، کل نہیں ہیں۔
(ج) ایک مومن کا ایمان اوراس کی عقل یہ کہتی ہے کہ ’حقیقی عدل‘ کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ کیوں کہ حقیقی انصاف تک پہنچنے کے لیے حقیقی اور ہمہ گیر علم کی ضرورت ہے جو کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ انسان کی عقلیں تواتنی ناقص اور متفاوت ہیں کہ ایک شخص کی عقل جس چیز کو انصاف قراردیتی ہے دوسرے کی عقل اسی چیز کو ظلم سمجھتی ہے۔اس لیے عدل وظلم کی تعیین کے لیے معیاراللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی وحی ہے نہ کہ انسان کی عقل۔ (اگست ؍ستمبر ۱۹۷۴ء،ج۵۲،ش۲۔۳)