مکتبہ الحسنات کی جون ۱۹۷۶ء کی شائع شدہ ’اسلامی فقہ ‘مرتبہ مولانا مجیب اللہ ندوی پیش نظر ہے۔ موصوف نے صفحہ ۲۰۹پر ’’جو باتیں اعتکاف میں حرام ہیں ‘‘ کی سرخی کے تحت فرمایا ہے
۲-غسل کے لیے وہ مسجد سے باہر اسی وقت نکل سکتا ہے جب یہ غسل شرعی ہو۔یعنی اس کو احتلام وغیرہ ہوگیا ہوتو وہ مسجد سے باہر نکل کر غسل کرسکتا ہے۔ لیکن صرف بدن کی صفائی کے لیے غسل کرنے کے لیے باہر نکلنا ناجائز ہے۔
۳-جمعہ کی نماز کے لیے اگر جامع مسجد جانا ہو تو اسے سنت پڑھ کر جانا چاہیے۔ اور خطبہ اور نماز سے فارغ ہوکر فوراً واپس آجانا چاہیے۔ اورسنت یہیں آکر پڑھنی چاہیے۔
۵-اگر مسجد کے اندرپانی کا انتظام نہیں ہے اور کوئی اس کو پانی دینے والا بھی نہ ملے تو وضوکے پانی کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے۔
۷- وضو کرنےکے لیے حتی الامکان ایسی جگہ بیٹھنا چاہیے کہ جسم مسجد سے باہر نہ ہواور وضو کاپانی مسجد میں نہ گرے۔
پھر اسی سرخی کے تحت اخیر میں تحریرہے۔
’’مسجد سےباہر نکلنے کامطلب یہ ہے کہ جتنی جگہ میں عام طورپر نماز پڑھی جاتی ہے اتنا حصہ مسجد میں شامل ہے اور جہاں عام طورپر نماز نہیں پڑھی جاتی ہے بلکہ دوسرے کاموں کے لیے ہے مثلاً پیشاب خانہ،پاخانہ،غسل خانہ، وضوخانہ یا وضوکی منڈیریا جوتا اتارنے کی جگہ یہ سب مقامات مسجد کے حکم میں نہیں ہیں۔ ان میں بلاضرورت جانا مسجد سے باہر جانا شمارہوگا اور اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔‘‘
دریافت طلب یہ باتیں ہیں
۱-شق نمبر (۲) کے تحت مئی تاستمبر کے رمضان المبارک کے اعتکاف میں دس دن تک بغیر غسل کے رہنا پڑے گا جب کہ ایک دن بھی غسل نہ کرو توبدن اور کپڑوں سے بدبوآنے لگتی ہے۔ کیا یہ رہبانیت میں نہیں آتا؟
۲- شق (۳) کے تحت جو کچھ لکھا گیاہے وہ جس سرخی کے تحت لکھا گیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی معتکف جامع مسجد جاکر سنت پڑھے او رپھر نماز جمعہ کے بعد سنت پڑھ کر واپس آئے تو اس کا ایسا کرناغلط ہوگا لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ الجھن کو دورکیجیے۔
۳- شق نمبر (۵)اور (۷) سے معلوم ہوتاہے کہ مسجد سے باہر جاکر یہاں تک کہ اس جگہ جاکر بھی جومسجدوں میں وضوکے لیے بنائی جاتی ہے معتکف وضو نہیں کرسکتا اس کو وضو مسجد کے اندر ہی کرنا چاہیے۔ اور شرط یہ ہے کہ پانی مسجد میں نہ گرے۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ وضو کس طرح کیاجائے گا؟یہاں مسجد میں صحن کے کنارے چبوترہ ہے اس کے بعد نالی اور پانی کی ٹوٹیاں لگی ہوئی ہیں اب وضو کس طرح کیاجائے کہ جسم مسجد سےباہر نہ ہو اور وضو کاپانی مسجد میں نہ گرے؟
(۴) کیا اعتکاف میں چند منٹ کےلیے اپنی تجارت کا حساب دیکھا جاسکتاہے؟
جواب
میرے دفتر میں ’اسلامی فقہ ‘ موجود نہیں اس لیے عاریتاً دفتر الحسنات سے حاصل کی۔ خیا ل یہ تھا کہ ان مسائل کے بارے میں حوالہ ہوگا، میں حوالےکی کتاب کا مطالعہ کرلوں گا۔ لیکن افسوس کہ اس کتاب میں ان مسائل کے تحت کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ میں اپنے مطالعہ کے مطابق جواب دوں۔
آپ نے پہلے سوال میں رہبانیت کی بات بے سوچے لکھی ہے۔ حالت اعتکاف میں دس دنوں تک رات کے وقت بھی بیوی سے مباشرت ناجائز ہے اور اس کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے۔
وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ۔ (البقرۃ۱۸۷)
(جب تم مسجدوں میں معتکف ہوتو ان سے مباشرت نہ کرو) کیا آپ کے نزدیک یہ رہبانیت ہے؟ اور آپ جانتے ہیں رہبانیت کا اصل تعلق ترک نکاح یا عورتوں سے عدم مباشرت ہی سے ہے۔ رہبانیت کا تعلق کسی محدود مدت سے نہیں بلکہ اس کا تعلق زندگی کےایک مستقل اور دائمی رویے سے ہے۔ اس لیے اگر بدن کی صفائی کے لیے حالت اعتکاف میں غسل کی اجازت نہ ہو تو اس کو رہبانیت نہیں سمجھنا چاہیے۔
اب اپنے سوال کےجواب میں سب سے پہلے یہ جان لیجیے کہ جہاں تک فقہ حنفی کا تعلق ہے بلاعذرمسجد سے باہر نکلنے سے جواعتکاف فاسد ہوجاتاہے وہ واجب اعتکاف ہے۔فقہائے احناف نے اعتکاف کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ واجب،سنت موکدہ، نفل۔ واجب وہ اعتکاف ہے جس کی نذرمانی گئی ہو، سنت موکدہ رمضان کے اخیر عشرے کا اعتکاف ہے اور نفل اعتکاف کے لیے کوئی خاص دن یا وقت مقرر نہیں ہے۔وہ دس پندرہ منٹ بلکہ اس سے بھی کم وقت کا ہوسکتاہے۔بلاعذر مسجد سے نہ نکلنے کے بارے میں علامہ کاسانی نے لکھا ہے
لا یخرج المعتکف من معتکفہ فی الاعتکاف الواجب لیلا اونھارا الابمالا بد لہ منہ من الغائط والبول وحضورالجمعۃ (بدائع الصنائع ج۲،ص۱۱۴)
’’معتکف اپنے معتکف (جس میں اس نے اعتکاف کیا ہے) سے اعتکاف واجب میں نہ رات کو نکلے گا اور نہ دن کو الا کہ وہ پاخانہ وپیشاب کی لابدی ضرورت کے لیے نکلے گا اور نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے نکلے گا۔‘‘
بلاعذرمسجدسے باہر نہ نکلنے کی شرط کے ساتھ اعتکاف واجب کی قید فقہ حنفی کی دوسری کتابوں میں بھی ہے۔علامہ ابن نجیم نے اعتکاف کے فاسد ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اس صراحت کے ساتھ کہاہےکہ
وقد علمت ان الفسا د لایتصور الا فی الواجب۔
(البحرالرائق جلد۲،صفحہ ۳۰۳)
’’اور تم جان چکے کہ فساد کا تصور نہیں ہوتا مگر واجب میں۔ ‘‘
بلاعذر مسجد سے باہر نکلنے کی صورت میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ معتکف تھوڑی دیر کے لیے بھی مسجد سے نکل جائے تو اس کا واجب اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ اور ان کے دوشاگرد امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کی رائے یہ ہے کہ معتکف بلاعذر آدھے دن سے زائد مسجد سے باہر رہے گاتب اس کا واجب اعتکاف فاسد ہوگا ورنہ نہیں۔
فان خرج من المسجد لغیر عذرفسد اعتکافہ فی قول ابی حنیفۃ و لوساعۃ وعند ابی یوسف ومحمد لا یفسد حتی یخرج اکثر من نصف یوم۔ (بدائع جلد۲،صفحہ ۱۱۵)
’’تواگر وہ بغیر عذرمسجد سے نکل گیا توبقول ابوحنیفہ اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا خواہ وہ تھوڑی دیر کے لیے نکلا ہواور ابویوسف ومحمد کے نزدیک اعتکاف فاسد نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ آدھے دن سے زیادہ مسجد سے باہر رہے۔‘‘
امام محمد نے کہا کہ امام ابوحنیفہ کاقول قیاس سے زیادہ قریب ہے اور امام ابویوسف کے قول میں (جس کو خود امام محمد نے بھی اختیارکیاہے) توسع زیادہ ہے۔اسی کو صاحب ہدایہ نے یوں کہا ہےکہ امام صاحب کاقول ’قیاس‘ ہے اور صاحبین کا قول ’استحسان‘ ہے۔
یہ تفصیل میں نے اس لیے پیش کی ہے کہ دوباتوں پرغورکرناچاہیے۔
۱-جب رمضان کے اخیرعشرے کا اعتکاف واجب نہیں ہے تو کیا خود امام صاحب کے قول کی بناپر زیر گفتگو مسئلے میں اگر معتکف مثال کے طورپر اسی مسجد کے غسل خانے میں پانچ سات منٹ کے اندر صفائی بدن کا غسل کرکے مسجد میں آجائے تو کیا اس کا وہ اعتکاف مسنون فاسد ہوجائے گا؟
۲- ہمارے موجودہ دور میں امام ابوحنیفہؒ کا قول قابل ترجیح ہے یا صاحبین کا؟ فقہی تفصیلات پڑھ کر اس حقیر کی رائے یہ بنی ہےکہ رمضان کے اعتکاف مسنون میں بھی بہتر یہی ہے کہ معتکف محض صفائی بدن کے غسل کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ لیکن وہ تھوڑی دیر میں غسل کرکےمسجد میں واپس آجائے تواس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا۔
اس بات پربھی غورکرنا چاہیے کہ امام ابوحنیفہ ؒکی رائے میں ’ساعۃ‘ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد ۲۴گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ تو نہیں ہے لیکن اب گھڑیوں سے منٹوں میں کوئی نہ کوئی مقدار تو متعین کرنی چاہیے۔اب اگر بالفرض دس منٹ مقرر کیے جائیں اور کوئی آٹھ منٹ میں غسل غیرواجب کرکے مسجد میں واپس آجائے توامام صاحب کی رائے کے مطابق بھی اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہونا چاہیے۔
۲- ’اسلامی فقہ ‘ کے محترم مولف نے یہ مسئلہ کہاں سے لکھا ہے معلوم نہیں۔ جس عنوان کے تحت اور جس اندا ز میں انھوں نے لکھا ہے اس سے وہی بات معلوم ہوتی ہے جو آپ نے سمجھی لیکن وہ بات کم سے کم فقہ حنفی کی تو ہے نہیں۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں تو صراحت ہے کہ معتکف نماز جمعہ کے لیے اتنا پہلے نکلے کہ خطبہ سے پہلے چار رکعتیں سنت پڑھ لے اور نمازجمعہ ختم ہونے کے بعد چار رکعتیں یا چھ رکعتیں پڑھ کر اس مسجد میں واپس جائے جہاں وہ معتکف ہے۔ میں بدائع الصنائع کی عبارت نقل کرتاہوں جو فقہ حنفی کی بے نظیر کتاب ہے۔ علامہ کاسانی نے امام کرخی کے حوالے سے لکھا ہے
فذکرالکرخی وقال ینبغی ان یخرج الی الجمعۃ عند الاذان فیکون فی المسجد مقدار مایصلی قبلھا اربعا وبعدھا اربعا اوستا۔ (جلد۲،صفحہ ۱۱۴)
’’کرخی نے ذکرکیا اورکہا کہ مناسب یہ ہے کہ معتکف جمعہ کے لیے اذان کے وقت جائے اور وہ مسجد میں اتنی دیر ٹھیرے کہ نماز جمعہ سے پہلے چاررکعتیں اوراس کے بعد چاررکعتیں یاچھ رکعتیں پڑھ لے۔‘‘
چاریاچھ کی بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے بعد امام صاحب کے نزدیک چاررکعتیں سنت ہیں اور صاحبین کے نزدیک چھ رکعتیں۔ بدائع میں جو کچھ لکھا ہے یہی فقہ حنفی کی دوسری کتابوں میں بھی ہے اور یہی مسئلہ فتاویٰ عالم گیری جلد۱ صفحہ ۲۱۲ پر کتاب کافی کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔فقہ حنفی میں اس کی بھی صراحت ہے کہ اگر معتکف جامع مسجد میں اس سے زیادہ دیرتک ٹھیرارہے تو اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔ کیوں کہ وہ بہرحال مسجد ہی میں ہے لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔ کیوں کہ جس مسجد میں اس نے اعتکاف کا التزام کیا ہے یہ بات اس کے خلاف ہے۔ان صراحتوں کے بعد مولف کی عبارت پڑھیے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اگر وہ نما ز جمعہ کے بعد فوراًواپس نہ جائے تو اس کا اعتکاف ہی ختم ہوجائے گا۔
(۳) وضو کے بارے میں جناب مولف نے جو کچھ لکھا ہے وہ تو عجیب وغریب ہے۔ اپنی کتاب کے دیباچے میں انھوں نے حوالے کی جن کتابوں کی فہرست دی ہے ان میں فتاویٰ عالم گیری بھی ہے۔ عالم گیری میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ معتکف جب اپنے گھر میں استنجا کے لیے داخل ہوتو وہاں سے وضو کرکے فوراً مسجد واپس جائے اوراگر وہ وضو سے فارغ ہونے کے بعد بھی بلاعذر کچھ دیر اپنے گھر میں رک جائے تو اس کا اعتکاف امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک فاسد ہوجائے گا۔ عالم گیری کی عبارت یہ ہے
فاذا خرج لبول او غائط لا باس بان یدخل بیتہ ویرجع الی المسجد کما فرغ من الوضوء ولومکث فی بیتہ فسداعتکافہ وان کان ساعۃ عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ کذا فی المحیط۔ (جلد۱،صفحہ ۲۱۲)
’’پس جب وہ پیشاب یا پاخانہ کے لیے نکلے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے گھر میں داخل ہواور پھر وضو سے فارغ ہوتے ہی مسجد واپس آجائے اور اگر اس کے بعد وہ اپنے گھر میں ٹھہرگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔اگرچہ وہ تھوڑی دیر ٹھہراہو،ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک۔ایسا ہی محیط میں ہے۔‘‘
معلوم ہواکہ گھر میں وضو سے فراغت تک ٹھیرنے کی اس کو اجازت ہے۔ شاید جناب مولف کی نظر سے یہ عبارت نہیں گزری۔ یہی بات صاحب ہدایہ نے دوسرے الفاظ میں لکھی ہے۔ پیشاب پاخانہ کے لیے مسجد سے نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے
ولا یمکث بعد فراغہ من الطھور لان ماثبت بالضرورۃ یتقدربقدرھا۔ (ہدایہ مع فتح القدیر،جلد۲،صفحہ۱۱۰)
’’اور معتکف مسجد سے باہر طہارت سے فراغت کے بعد نہ رکے۔ اس لیے کہ جو چیز ضرورتاً ثابت ہوتی ہے وہ بقدرضرورت ہی صحیح رہتی ہے۔‘‘
اس عبارت میں وضو کے بجائے طہورکا لفظ اختیار کیاگیا ہے جس میں وضو اور غسل واجب دونوں داخل ہیں۔ اس سے مزید یہ بات معلوم ہوئی کہ جس طرح رفع حاجت انسان کی ایک ’ضرورت‘ ہے اسی طرح طہارت حاصل کرنا بھی اس کی ایک ضرورت ہے خواہ حدث اصغر سے ہویا حدث اکبر سے۔ لہٰذا معتکف کو جس طرح پہلی ضرورت کے لیے مسجد سے باہر جانے کی اجازت ہے۔ اسی طرح دوسری ضرورت یعنی طہارت حاصل کرنے کے لیے بھی اس کو مسجد سے باہر جانے کی اجازت ہوگی۔
میرا خیال ہے کہ جناب مولف نے فقہ کی بعض عبارتوں کو نہیں سمجھا اور یہ خیال قائم کرلیا کہ معتکف کو مسجد کے اندربیٹھ کر وضو کرنا چاہیے حالاں کہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ معتکف اگر مسجد کے اندروضو یا غسل کرسکتا ہوتو خاص طورپر اس کو اس کی اجازت ہے شرط یہ ہے کہ کسی برتن میں وضو یا غسل اس طرح کرے کہ پانی مسجد میں نہ گرے اور وہ آلودہ نہ ہو۔احتلام کی وجہ سے غسل واجب کا ذکر کرتےہوئے فتاویٰ عالم گیری میں لکھا گیاہے
ثم ان امکنہ الاغتسال فی المسجد من غیران یتلوث المسجد فلاباس بہ والا فیخرج ویغتسل ویعود الی المسجد ولو توضا فی المسجد فی اناء فھوعلی ھذاالتفصیل ھٰکذافی البدائع وفتاویٰ قاضی خان۔ (جلد۲،صفحہ ۲۱۳)
’’پھر اگر معتکف کے لیے مسجد میں غسل کرنا ممکن ہواس کے بغیر کہ مسجد آلودہ ہوتو کوئی حرج نہیں ورنہ وہ مسجد سے نکلے گا، غسل کرے گا اورپھر مسجد واپس آئے گا اور اگر وہ مسجد کے اندر کسی برتن میں وضو کرے تو وہ اسی تفصیل پرہے۔ایسا ہی فتاویٰ قاضی خاں اور بدائع میں ہے۔‘‘
’’وہ اسی تفصیل پرہے‘‘ کامطلب یہ ہے کہ اگر مسجد آلودہ نہ ہوتو وہ مسجد کے اندر وضو کرسکتا ہے ورنہ مسجد سے باہر جاکر وضو کرے گا اور مسجد واپس آئے گا۔ غالباًیہی یا اسی طرح کی عبارتیں ہیں جسے جناب مولف سمجھ نہیں سکے اور انھوں نے معتکف کے لیے مسجد کے اندروضو کرنا ضروری قراردے دیا۔ فقہ حنفی میں جو تصریحات ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں وضو کرنے کی جو جگہ بنائی جاتی ہےاس کا حکم بھی گویا مسجد ہی کے ایک گوشے کا ہوتا ہے، وہ جگہ مسجد سےبالکل خارج قرارنہیں دی جائے گی۔ ایک بحث یہ ہے کہ اگر اذان گاہ ایسی ہو جس کا دروازہ مسجد سے باہر ہوتو کیا اس اذان گاہ پر جاکر معتکف اذان دے سکتا ہے ؟ اس سوال کا صحیح جواب یہ ہے کہ ہاں وہ مسجد سے باہر نکل کر اوراس اذان گاہ پر جاکر اذان دے سکتا ہے۔ خواہ وہ معتکف مسجدکا مقررشدہ موذن ہویا کوئی اور۔ اس کے جواز کی دلیل دیتے ہوئے علامہ کاسانی نے ایک اصولی بات یہ لکھی ہے
الا تری انہ یمنع فیہ کل مایمنع فی المسجد من البول ونحوہ ولا یجوز بیعھا فاشبہ زاویۃ من زوایا المسجد۔ (ج ۲،ص۱۱۵)
’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس میں پیشاب اور اس جیسی ہروہ شے ممنوع ہے جو مسجد میں ممنوع ہے اور اذان گاہ کو فروخت کرنا بھی جائز نہیں، لہٰذا وہ مسجد میں سے ایک گوشے کے مشابہ ہے۔‘‘
جوبات انھوں نےاذان گاہ کے بارے میں لکھی ہے وہ وضوگاہ پربھی صادق آتی ہے۔ اس میں بھی پیشاب پاخانہ کرنا ممنوع ہے اوراس کو بھی فروخت کرنا جائز نہیں ہے تو پھر وضو کی جگہ بھی مسجد کے حصوں میں سے ایک حصہ کے مشابہ ہوگی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ یہ تمام تصریحات مولف اسلامی فقہ کی نظروں سے اوجھل رہیں ؟
لاباس بان یبیع ویبتاع فی المسجد من غیران یحضرالسلعۃ۔
’’اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ (یعنی معتکف ) بیچے اور خریدے بغیر اس کے کہ سامان تجارت مسجد میں لائے۔‘‘
جب مسجد میں معتکف کے لیے خریدوفروخت بایں شرط جائز ہے کہ سامان تجارت مسجد میں نہ لایا جائے، تو اپنی تجارت کا حساب دیکھنا بھی جائز ہوگا۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ اعتکاف دنیوی کاروبارکی مشغولیت سے خالی ہو، اس لیےایسا اس وقت کرنا چاہیے جب حساب دیکھنے والا کوئی معتمد علیہ شخص موجود نہ ہو اور حساب نہ دیکھنے سےآئندہ کسی دشواری یا نقصان کا اندیشہ ہو۔ راقم الحروف ضرورت محسوس کرتا ہے کہ اعتکاف پرایک سیر حاصل مقالہ لکھاجائے۔ (نومبر ۱۹۷۷ء، ج ۵۹، ش۵)