بعد نماز فاتحہ خوانی اورسلام وقیام

, , ,

(۱) کچھ لوگ بعد نماز ہاتھ اٹھاکر مسجد میں فاتحہ خوانی کرتے ہیں ۔ کیا یہ عمل مسنون ہے؟

(۲) بعد نماز سلام پڑھا جاتا ہے اوراس تصور کے ساتھ کہ نبی ﷺ تشریف فرماہیں، ان کے ادب میں قیام کرنا چاہیے۔ کیا یہ سلام وقیام درست ہے؟

جواب

(۱) بعد نماز ہاتھ اٹھاکر فاتحہ خوانی کو اگر کوئی شخص مسنون سمجھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ یہ جانتا ہی نہیں کہ مسنون کس فعل وعمل کو کہتے ہیں ۔ اسے بتائیے کہ مسنون اس فعل کو کہتے ہیں جو نبیﷺ  سے ثابت ہو۔ بعد نماز فاتحہ خوانی تو بہت دور کی بات ہے،نبی ﷺ سے تو کسی وقت بھی ’فاتحہ خوانی‘ ثابت نہیں ہے۔

جو لوگ بعد نماز فاتحہ خوانی کرتے ہیں انھوں نے ایک بدعت سئیہ ایجاد کی ہے۔ ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔

(۲) اس تصور کے ساتھ جس کا ذکر سوال میں ہے سلام وقیام ناجائز اور قریب بہ شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو ایسے خیال وعمل سے محفوظ رکھے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال یہ تھا کہ معمولی سے معمولی بدعت بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ مجاہدسے روایت ہے 

’’میں عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ ایک مسجد میں داخل ہوا۔ وہاں اذان دی جاچکی تھی ہمارا ارادہ تھا کہ وہاں جماعت سے نماز ادا کریں ۔ اتنے میں اس مسجد کے مؤذن نے اذان او راقامت کے درمیان تثویب کی (یعنی اس نے قد قامت الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جملے زورسے پکارکر کہے)۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد سے باہر آگئے اورانھوں نے فرمایا مجھے اس بدعتی کے پاس سے ہٹائو (اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر نا بینا ہوچکے تھے)۔ انھوں نے اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی۔‘‘                                       (ترمذی مطبوعہ ہند ص۳۴)

بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بار حضرت علیؓ کے ساتھ بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس بدعتی کو مسجد سے نکالو۔ بعض لوگوں کے ذہن ودماغ میں بدعت اس طرح رچ بس گئی ہے کہ انھوں نے نماز کو بھی نہیں بخشا ہے۔ نماز کے اندر حذف واضافہ تو شایدان کے بس سے باہر ہے لیکن نماز سے پہلے اوراس کے بعد انھوں نے طرح طرح کی بدعتیں رائج کرنے کی کوششیں کی ہیں اور جو مسجدیں  ان کے قبضے میں ہیں وہاں بدعتیں رائج بھی کردی ہیں ۔                     (جولائی ۱۹۷۴ءج۵۳ش۱)