اُصولِ حدیث
آپ نے تفہیمات حصہ اوّل،صفحہ ۲۴۸پر سورۂ النجم کی ابتدائی آیات مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى({ FR 2151 }) ( النجم:۲-۴ )کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
’’ان آیات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی بِنا پر نطق رسول کو صرف قرآن کے ساتھ مخصوص کیا جاسکتا ہو۔ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا ۱طلاق کیا جاسکتا ہے، آیات مذکورہ کی بِنا پر وحی ہوگی۔‘‘
پھر رسائل ومسائل ] سوال نمبر ۳۴۰ [ میں دجّال کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے:
’’دجّال کے متعلق جتنی احادیث نبی ﷺ سے مروی ہیں ، ان کے مضمون پر مجموعی نظر ڈالنے سے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺکو اﷲ کی طرف سے اس معاملے میں جو علم ملا تھا،وہ صرف اس حد تک تھا کہ ایک بڑا دجّال ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی یہ اوریہ صفات ہوں گی اور وہ ان ان خصوصیات کا حامل ہوگا۔لیکن یہ آپ کو نہیں بتایا گیا کہ وہ کب ظاہر ہوگا،کہاں ظاہر ہوگا،اور یہ کہ آیا وہ آپؐ کے عہد میں پیدا ہوچکا ہے یا آپؐ کے بعد کسی بعید زمانے میں پیدا ہونے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ظہور دجّال اور صفات وخصوصیات دجّال کے متعلق حضور ﷺ کے جو ارشادات ہیں ، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں ۔بخلاف اس کے ظہور دجّال کے زمانہ ومقام کے بارے میں روایات باہم متعارض ہیں جن میں تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے، کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی نہیں ہیں ۔‘‘
اسی سلسلے میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں :
’’یہ تردّد اوّل تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپ نے علم وحی کی بِنا پر نہیں فرمائی تھیں بلکہ اپنے گمان کی بِنا پر فرمائی تھیں ۔‘‘
آپ کی مندرجہ بالا تحریروں سے صاف واضح ہے کہ یہ باہم متناقض ہیں ۔ پہلی تحریر میں تو آپ نے فرمایا ہے کہ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے علم وحی پر مبنی ہو گی۔ لیکن دوسری تحریروں میں آپ بتاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے بعض ارشادات ایسے بھی ہیں جو علم وحی پر مبنی نہیں ہیں ۔ مثلاً ظہور دجّال کے زمانہ ومقام کے بارے میں آپ کے ارشادات۔ حالاں کہ ان ارشادات پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔
نیز مندرجہ ذیل سوال بھی جواب طلب ہے:
رسول اﷲ ﷺ کے جن ارشادات کی تائید قرآن میں موجود نہیں ، ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں یا نہیں ۔اگر آپ کا یہ جواب ہو، جیسا کہ آپ کی مندرجہ بالا تحریر سے ظاہر ہے کہ جو ارشادات نبویؐ باہم متعارض نہیں ہیں ،وہ مبنی بر علم وحی ہیں اور جو باہم متعارض ہیں وہ مبنی برعلم وحی نہیں ہیں ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کتب احادیث میں ایسی کئی متعارض احادیث ہیں جن کے بارے میں ائمۂ امت کا عقیدہ ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں اور جن سے انھوں نے مسائل کا استنباط بھی کیا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا فیصلہ ہے؟
جواب
میں نے آیت وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی کا جو مفہوم تفہیمات حصہ اوّل میں بیان کیا ہے، اس کی پوری تفصیل آپ نے دیکھنے کی زحمت نہیں اٹھائی اور صرف ایک فقرے پر اکتفا فرما لیا۔ اسی وجہ سے آپ کو اس میں اورمیری بعد کی ایک تحریر میں تناقض محسوس ہوا۔ براہِ کرم اسی کتاب کے صفحات۹۶ تا ۱۰۰، ۲۴۸ تا ۲۵۰، ۲۴۲ تا ۲۴۴ اور ۲۵۸ تا ۲۵۹غور ملاحظہ فرمالیجیے۔ آپ کے سامنے میرا پورا مدعا آجائے گا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ میرے نزدیک نبیؐ کے تمام اقوال وافعال میں وحی خفی کی کارفرمائی کس معنی میں تھی اور یہ بھی کہ حضورﷺ کی بعض باتوں کے وحی پر مبنی ہونے اور بعض کے نہ ہونے کا مطلب کیا ہے۔
اس کے بعد ضرورت تونہیں رہتی کہ آپ کے ان سوالات کا جواب دیا جائے جو آپ نے آخر میں کیے ہیں ،لیکن میں صرف اس لیے ان کا جواب حاضر کیے دیتا ہوں کہ پھر کوئی اُلجھن باقی نہ رہ جائے۔
احادیث میں تعارض کی تأویل
میں نے اپنی تحریر میں یہ کہیں نہیں کہا کہ ارشادات نبویؐ کے مبنی بروحی ہونے یا نہ ہونے کے لیے تعارض کا عدم اور وجود کوئی واحد یا حتمی قرینہ ہے، اور نہ میری تحریر کا منشا یہ ہے کہ جن اقوال مبارکہ میں کسی طرح کا تعارض یا اختلاف نظر آئے ،میں ان کے مبنی بر وحی ہونے کا انکار کرتا ہوں ۔ بعض اوقات ایسے ارشادات میں بھی بظاہر اختلاف نظر آتا ہے جن کا دیگر قرائن کی بِنا پر مبنی بر وحی ہونا واضح ہوتا ہے۔ مگر ایسی صورت میں اختلاف کو تأویل و تطبیق سے بآسانی رفع کیا جا سکتا ہے یا ان میں سے ایک کا ناسخ اور دوسرے کا منسوخ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ بعض روایات میں تعارض کا وجود مطلقاً نہ ہو مگر دوسرے قرائن ان کا علیٰ سبیل الرائے ہونا بالکل واضح کردیں ۔ میں نے جو بات کہی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ مبنی بروحی ارشادات ناقابل توجیہ تعارض سے پاک ہوتے ہیں اور جو ارشادات وحی پر مبنی نہیں ہوتے ،ان میں من جملہ دیگر قرائن کے بعض اوقات ایک قرینہ تعارض کا بھی پایا جاتا ہے۔ ( ترجمان القرآن ،جنوری۱۹۵۹ء)