جواب
سب سے پہلے میں آپ کی اس غلط فہمی کو دُورکرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کے سوال نمبر ۴میں پائی جاتی ہے۔آپ پوچھتے ہیں :’’کیا حرام کو حلال کرنا بھی فروع ہی رہے گا؟‘‘
اس سلسلے میں آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک حرام وحلال تو وہ ہے جو نصِ صریح میں حلال یا حرام قرار دیا گیا ہو، اور وہ اصولی چیز ہے جس میں رد وبدل کرنا موجب کفرہوجاتا ہے۔دوسرا حلال وحرام وہ ہے جو نصوص کی دلالتوں یا اشارات یا اقتضاآت سے استنباط کیا جائے۔ یہ فروعی چیز ہے اور اس میں ہمیشہ سے علما وفقہاے اُمت، حتیٰ کہ صحابہ اور تابعین کے درمیان بھی اختلاف رہے ہیں ۔ ایک ہی چیز کو کسی نے حلال قرار دیا ہے اور کسی نے حرام۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نوع کی استنباطی تحلیل وتحریم پر بحث وکلام سے آگے بڑھ کر کسی نے دوسرے کو یہ الزام دیا ہو کہ تمھارا دین بدل گیا ہے یا تم خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال کررہے ہو۔افسوس یہ ہے کہ اب ہمارے ہی ملک میں نہیں ، دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک مدت سے شرعی مسائل کی آزادانہ تحقیق کا سلسلہ بند ہے اور ہر گروہ کسی ایک مذہب فقہی کی پابندی میں اس قدر جامد ہوگیا ہے کہ اپنے ہی مذہب خاص کو اصل شریعت سمجھنے لگا ہے۔اس لیے جب لوگوں کے سامنے ان کے مانوس مسلک سے ہٹ کر کوئی تحقیق آتی ہے تو وہ اس پر اس طرح ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ گویا دین میں کوئی تحریف کی گئی ہے۔ حالاں کہ سلف میں ،جب کہ آزادانہ تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا تھا،علما کے درمیان حلال وحرام اور فرض وغیرفرض تک کے اختلافات ہوجاتے تھے اور ان کو نہ صرف برداشت کیا جاتا تھا بلکہ ہر گروہ اپنے نزدیک جو حکم شرعی سمجھتا تھا،اس پر خود عمل کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی یہ حق دیتا تھا کہ ان کے نزدیک جو حکم شرعی ہو،اس پر وہ عمل کریں ۔
اسی کھانے پینے کے مسئلے میں علماے سلف کے درمیان جو اختلافات ہوئے ہیں ،ان کی چندمثالیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ ان حضرات میں سے کس کو آپ حرام کے حلال یا حلا ل کے حرام کردینے کا الزام دے سکتے ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ وہ درندوں کے گوشت اور اس خون کے استعمال میں جو رگوں کے اوپر کے حصے میں رہ جاتا ہے،مضائقہ نہیں سمجھتی تھیں اور ان کا استدلال اس آیت سے تھا کہ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُہٗ(الانعام:۱۴۵ ) ({ FR 1645 }) ’’اے نبیؐ، ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو۔‘‘
اور اسی آیت کی بِنا پر حضرت عبداللّٰہ ابن عباسؓ بھی ان چار چیزوں کے سوا جن کو قرآن مجید میں حرام کیا گیا ہے (یعنی سؤر، مردار، بہتا ہوا خون اور مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ اور کسی چیز کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ ({ FR 1473 })
پالتو گدھے کے گوشت کے متعلق ایک گروہ کی راے یہ ہے کہ نبی ﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر بعض خاص وجوہ سے اس کے کھانے سے منع کیا تھا، اور یہ ممانعت اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ گدھے کا گوشت مطلقاً حرام ہے۔ ({ FR 1646 })
درندوں اور شکاری پرندوں کے معاملے میں امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب مطلق حرمت کے قائل ہیں ۔امام مالکؒ درندوں کو حرام سمجھتے ہیں مگر شکاری پرندوں مثلاً کرگس، عقاب،گدھ وغیرہ کوحلال قرار دیتے ہیں ،خواہ وہ مردار کھاتے ہوں یا نہ کھاتے ہوں ۔امام اوزاعی ؒ صرف گدھ کو مکروہ سمجھتے ہیں ،باقی ہر قسم کے پرندے ان کے ہاں حلال ہیں ۔لیثؒ بلی کو حلال سمجھتے ہیں اور بجّو کو مکروہ۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک صرف وہ درندے جو انسان پر حملہ کرتے ہیں ،یا وہ شکاری پرندے جو انسان کے پالتو جانوروں پر حملہ کرتے ہیں حرام ہیں ، بجّو اورلومڑی اس تعریف میں نہیں آتے۔ عکرمہؒ سے کوّے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہاکہ[دَجَّاجَۃٌ سَمِینَۃٌ]’’موٹی مرغی ہے‘‘ اور بجّو کے متعلق پوچھا گیا تو کہا کہ[نَعْجۃٌ سَمِینَۃٌ]’’موٹی دنبی ہے‘‘۔({ FR 1647 })
اسی طرح حشرات الارض کے بارے میں بھی اختلاف ہوا ہے۔ حنفیہ تمام حشرات الارض کو مکروہ سمجھتے ہیں ۔ ابن ابی لیلیٰ ؒ کہتے ہیں کہ سانپ کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر وہ اس کے ساتھ ذکات( یعنی ذبح) کی شرط لگاتے ہیں ۔یہی راے امام مالکؒ کی بھی ہے۔ اور امام اوزاعیؒ ذکات کی شرط کو بھی اُڑا دیتے ہیں ۔ لیثؒ کے نزدیک خار پُشت جائز ہے۔امام مالکؒ کے نزدیک مینڈک جائز ہے۔امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ جن چیزوں سے اہل ِ عرب گھن کھاتے تھے بس وہی خبائث ہیں ، چنانچہ اہل عرب بجّو اور لومڑی کھاتے تھے اس لیے یہ دونوں حلال ہیں ۔({ FR 1648 })
ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں نص صریح موجود نہ ہو وہاں استنباط کی بِنا پر حلال وحرام کے اختلافات سب فروعی اختلافات ہیں ۔کسی مسلک فقہی میں بربناے اجتہادکسی چیز کا حرام ہونا ہرگز یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ اصل شریعت الٰہی میں حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی کسی چیز کواپنے استنباط کی بِنا پر حلال قرار دے،تو اس پر بحث تو ضرور کی جاسکتی ہے لیکن یہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ اس پر رونگٹے کھڑے ہونے لگیں اور تحریف دین یا تَحْلِیْل مَاحَرَّمَ اللّٰہُ کے الزامات عائد کیے جانے لگیں ۔
اب میں اس اصل مسئلے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس پر آپ نے یہ سوالات کیے ہیں ۔
مجھے حیرت ہے کہ یہ بات آپ نے کہاں سے معلوم کرکے لکھی کہ بندوق سے مرے ہوئے شکار کے حرام ہونے پر چاروں امام متفق ہیں ۔کیا ائمۂ اربعہ میں سے کسی کے زمانے میں بندوق ایجادہوگئی تھی؟ ائمۂ اربعہ کے مقلد علما میں کسی گروہ کا یا سب کا ان کے استنباطی مسائل میں سے کسی مسئلے سے تخریج کرتے ہوئے کوئی حکم نکالنا اور چیز ہے اور خود ائمہ کا کوئی حکم بیان کرنا اور چیز۔ بندوق بہرحال فقہاے متأخرین کے زمانے میں ایجاد ہوئی تھی اور اس کی ساخت میں تازہ ترین اصولی تغیر توانیسویں صدی میں ہوا ہے۔ اس کے متعلق اگرکوئی حکم فقہا نے بیان کیا بھی ہے تو وہ ائمۂ سلف کے اجتہادی احکام سے تفریع در تفریع کرتے ہوئے ہی بیان کیا ہوگا،اس کی بنیاد پر آخر خواہ مخوہ یہ دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے کہ اس چیز کی حرمت پر ائمۂ اربعہ متفق ہیں ۔
میں نے بندوق کے شکار کے حلال ہونے کا مسئلہ جو بیان کیا ہے،وہ قاضی شوکانی ؒ سے ما ٔخوذ نہیں ہے بلکہ براہ راست کتاب وسنت سے اخذ کیا ہوا ہے۔ شریعت میں جانوروں کی ذکات (یعنی شرعی طریقے سے ان کے ذبح) کے جو احکام ہیں ،ان کو اصولاً دو حصوں پر تقسیم کیا گیا ہے:
ایک قسم کے جانور وہ جو ہمارے قابو میں ہیں اور جن کو ہم مقرر طریقے کے مطابق ذبح کرسکتے ہوں ۔ ان کی شرطِ ذکات اور ہے اور اسے اصطلاحاً ذکاتِ اختیاری کہا جاسکتا ہے۔
دوسری قسم کے جانور وہ ہیں جو ہمارے قابو میں نہ ہوں ، مثلاًجنگلی جانور، یا وہ اہلی جانور جو بھاگ نکلا ہو اور وحشی کے حکم میں آگیا ہو، یا وہ جانور جو کہیں گر پڑا ہو اور جس کی شرط ذکات مقررہ طریقے پرادا نہ کی جاسکتی ہو، یا وہ جانور جو کسی وجہ سے مرنے کے قریب ہو اور ذبح کے لیے چھری تلاش کرتے کرتے اس کے مرجانے کا امکان ہو۔ایسے تمام جانوروں کی شرطِ ذکات دوسری ہے اور اسے اصطلاحا ً ہم ذکات اضطراری کے لفظ سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔
پہلی قسم کے جانوروں کا مقامِ ذبح حلق ہے اور ان کو ذبح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی تیز دھاروالے آلے سے ان کے حلقوم کو اس حد تک کاٹا جائے کہ نرخرہ اور رگِ گلو کُھل جائے۔
رہے دوسری قسم کے جانور، تو ان کا سارا جسم مقام ذبح ہے اور کسی چیز سے،خواہ وہ کوئی ہو، ان کے جسم میں اتنا خرق (puncture) کر دینا کافی ہے کہ خون بہ جائے۔اس سلسلے میں جو نصوص کتاب وسنت سے ہمیں ملتی ہیں ، وہ ترتیب وار درج ذیل ہیں :
(۱) اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۰ۙ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللہُ۰ۡفَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ ( المائدہ:۴)
’’حلال کردی گئیں تمھارے لیے ساری پاک چیزیں ۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو، جن کو تم خدا کے دیے ہوئے علم کی بِنا پر شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو،وہ جس جانور کو تمھارے لیے پکڑ رکھیں ،اس کو تم کھا لواور اس پر اﷲ کا نام لو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ سدھائے ہوئے شکاری جانور کو اگر خدا کا نام لے کر چھوڑا گیا ہو تواس کے پنجوں اور کچلیوں سے جو زخم وحشی جانوروں کو لگ جاتا ہے اور جو خون اس طرح نکل جاتا ہے،اس سے ’’اضطراری ذکات‘‘ کی شرط پوری ہوجاتی ہے، اور اگر ایسا جانورزندہ نہ ملے اور اسے باقاعد ہ ذبح نہ کیا جاسکا ہو تب بھی وہ حلا ل ہے۔
(۲) حضرت عدی بن حاتمؓ نے نبی ﷺسے پوچھا کہ ہم معراض پھینک کر شکار کرتے ہیں ۔حضورﷺنے جواب دیا:
إِذَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، فَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ فَلاَ تَأْكُلْ({ FR 1474 })
’’یعنی اگر وہ چھیددے تو کھالو، لیکن اگر معراض اپنے عرض کی طرف سے جانور کولگی ہو اور اس سے وہ مرگیا تو وہ چوٹ کھایا ہوا جانور (موقوذہ) ہے،اسے نہ کھائو۔‘‘
معراض ایک بھاری لکڑی یا عصاکو کہتے ہیں جس کے سرے پر یا تو لوہے کی انی لگی ہوئی ہو یا ویسے ہی لکڑی کو نوک دار بنادیا گیا ہو۔اس کی چوٹ سے جسم کے کسی حصے کا اس حد تک پھٹ جانایاچھد جانا کہ اس سے خون بہ جائے،شرط ذکات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔
(۳) رافع بن خدیجؓکہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کل دشمن سے ہمارا مقابلہ ہے اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں ہیں کہ ہم جانوروں کو ذبح کرسکیں ،تو کیا ہم پھٹے ہوئے بانس کی کھپچی سے ذبح کرسکتے ہیں ؟ حضورﷺ نے فرمایا: مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ({ FR 1475 }) ’’یعنی خدا کا نام لے کر جس چیز سے بھی خون بہا دیا جائے، ایسے جانور کو کھالو،البتہ دانتوں اور ناخنوں سے یہ کام نہ لیا جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز وہ آلہ نہیں ہے جس سے کام لیا جارہا ہو، بلکہ شرط ذکات پوری کرنے میں صرف یہ بات معتبر ہے کہ خون بہا دیا جائے۔اسی کی تائید یہ حدیث کرتی ہے کہ حضرت عدی ابن حاتمؓ نے پوچھا: ’’یارسول اللّٰہ! اگر ہم میں سے کسی شخص کو شکار مل جائے اور اس کے پاس چھری نہ ہو توکیا وہ پتھر کی دھار یا پھٹی ہوئی لکڑی سے ذبح کرسکتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: أَمْرِرِ الدَّمَ بِمَا شِئْتَ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ({ FR 1476 }) ’’یعنی خون بہا دو جس چیز سے چاہو اور اﷲ کا نام لو۔‘‘
(۴) ابو العُشَراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ!کیا ذبح کا مقام صرف حلق اور لبلبہ ہی نہیں ہے؟‘‘آپﷺ نے فرمایا: لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا لَأَجْزَأَ عَنْكَ({ FR 1477 }) ’’یعنی اگر تو اس کی ران میں بھی چبھو دے توکافی ہے۔‘‘ ابودائود کہتے ہیں کہ یہ ایسے جانور کی ذکات ہے جو کسی گڑھے وغیرہ میں گرگیا ہو۔({ FR 1556 })[سنن]ترمذی ] میں یزید بن ہارون[ کہتے ہیں کہ تمام ضرورت کے موقعوں کے لیے یہی ذکات ہے۔({ FR 1557 })
اس سے ثابت ہوا کہ جو جانور ہمارے قابو میں نہیں ہے، اس کے جسم کا ہر حصہ مقام ذبح ہے۔نیز یہ کہ اصل شے وہ آلہ نہیں ہے جس سے کام لیا جائے، بلکہ صرف جسم کو چھید دینا ہے تاکہ خون بہ جائے۔
(۵) کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہماری بکریاں مقام سلع میں چر رہی تھیں ،یکایک ہماری لونڈی نے دیکھا کہ ایک بکری مرنے کے قریب ہے۔اس نے فوراً ایک پتھر توڑا اور اسے ذبح کردیا۔نبی ﷺ نے اس کے کھانے کی اجازت دے دی۔({ FR 1558 }) عطا بن یسار کہتے ہیں کہ بنی حارثہ میں سے ایک شخص احد کے قریب گھاٹی میں ایک اونٹنی چرا رہا تھا،یکایک اس نے دیکھا کہ اونٹنی مررہی ہے، مگر اسے کوئی چیز ایسی نہیں ملی جس سے وہ ذبح کرسکتا۔ آخر اس نے خیمہ گاڑنے کی ایک میخ لی اور اسے اونٹنی کے لبلبے میں چبھو دیا، یہاں تک کہ اس کا خون بہ گیا۔ پھر نبی کریمﷺ کو اس کی خبر دی اورآپؐ نے اسے کھالینے کی اجازت دے دی۔ ({ FR 1559 })
ٹوٹے ہوئے پتھر کی دھار تو پھر بھی دھار کی تعریف میں آتی ہے، لیکن لکڑی کی نوک دار میخ کو دھار دار آلے کی تعریف میں جس حد تک لایا جاسکتا ہے،ظاہر ہے۔
مذکورہ بالا نصوص کو سامنے رکھنے کے بعد بندوق کے مسئلے پر غور کیجیے۔بندوق کی گولی کو غلیل کے ٹھنڈے غُلّے پر قیاس کرنا اور اس کی بِنا پر یہ سمجھنا کہ اس سے جو جانور مرتا ہے،وہ دراصل اسی طرح کی چوٹ کھا کر مرتا ہے جیسی پتھر یا لکڑی کے عرض سے لگتی ہے،صحیح نہیں ہے۔گولی جس قوت سے بندوق سے نکلتی ہے اورپھر جس تیز رفتار کے ساتھ وہ بندوق سے نشانے تک (تقریباً۵۰۰ گز فی سیکنڈ) راستہ طے کرتی ہے،اس کی بِنا پر وہ کوئی ٹھنڈا سنگ ریزہ نہیں رہتی، بلکہ اچھی خاصی نرم اور تقریباًنوک دار ہوکر جسم کو چھیدتی ہوئی اس میں گھستی ہے اور پھراس سے خون بہ کر جانورمرتا ہے۔ یہ عمل شکاری جانور کے ناخنوں اور کچلیوں اور معراض یالکڑی کی میخ کا سرا چبھنے سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتا،بلکہ خون بہانے میں بعیدنہیں کہ ان سے زیادہ ہی کارگر ہو۔
ان وجوہ سے میری راے میں اگر خدا کا نام لے کر بندوق چلائی جائے اور اس کی گولی یا چَھرّے سے جانور مر جائے تو اس کے حلال نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کا اس پر اطمینا ن نہ ہو اور وہ اس کو حرام ہی سمجھتا ہو تو مجھے اس پر بھی اصرار نہیں ہے کہ وہ ضرور اسے حلال مانے اور واجب ہے کہ اسے کھائے۔میرا اجتہاد میرے لیے قابل عمل ہے اور دوسرو ں کا اجتہاد یا کسی مجتہد کا اتباع ان کے لیے۔اس اجتہادی اختلاف سے اگرچہ میرے اور ان کے درمیان حرام وحلا ل کا اختلاف ہوجاتا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں فریق ایک ہی دین میں رہتے ہیں ،الگ الگ دینوں کے پیرو نہیں ہوجاتے۔
(ترجمان القرآن ،فروری۱۹۴۶ء)