جواب
آپ کا سوال کہ کیا سب بنی اسرائیل نے دینِ موسوی قبول کرلیا تھا،یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے خیال میں بنی اسرائیل غالباً کافر تھے،اور حضرت موسیٰ ؈ شاید پہلے شخص تھے جنھوں نے ان کو دین ِ اسلام کی طرف دعوت دی۔ حالاں کہ فی الواقع صورتِ حال یہ نہ تھی۔بنی اسرائیل تو تھے ہی پیغمبروں کی اولاد۔ حضرت ابراہیم؈ ، حضرت اسحاق؈ اور حضرت یعقوب؈ ان کے مُورث ِ اعلیٰ تھے۔ حضرت یوسف؈ بھی ان کے بزرگوں میں تھے۔حضرت موسیٰ ؈ سے پہلے ان کے آخری نبی (حضرت یوسفؑ) کو گزرے ہوئے چارپانچ سو برس سے زیادہ نہ گزرے تھے۔ اس مدت میں وہ کافر نہیں ہوگئے تھے کہ ان کے کفر سے اسلام میں لانے کا کوئی سوال درپیش ہوتا،نہ ان میں موسیٰ ؈ کی دعوت کا کوئی منکر تھا۔ البتہ ان کے اندر اتنا ضعف آگیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ؈ کی قیادت میں فرعون اور اس کی قوم کی طاقت سے تصادم کی جرأت کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔اس وجہ سے ان کے نوجوان تو حضرت موسیٰ ؈ کی قیادت میں اسلامی تحریک کو چلانے کے لیے بڑی حد تک تیار ہوگئے تھے لیکن ان کے سن رسیدہ اور جہاں دیدہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ موسیٰ ؈ کا ساتھ دینے کے معنی اپنی دنیا کو تباہ کرلینے کے ہیں ۔ قرآن مجید کے مطالعے سے اس حالت کا نقشہ بالکل صاف طورپر سامنے آجاتا ہے(مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: سورۂ الاعراف رکوع۱۵ و سورۂ یونس،رکوع۹)۔ اس بات کا قرآن سے کہیں نشان نہیں ملتا کہ ان ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں سے کوئی عملاً فرعون کا ساتھ دے کر حضرت موسیٰ ؈ کی مخالفت کررہا تھا۔({ FR 1658 })بلکہ قرآن اور بائبل دونوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؈ بنی اسرائیل کے مسلّم لیڈر بن گئے تھے، حتیٰ کہ جب وہ بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر چلے تو ایک اسرائیلی بھی پیچھے نہ رہا۔
حضرت مسیح ؈ کے زمانے میں جس تنزل کو بنی اسرائیل پہنچے،اس پر حضرت موسیٰ ؈ کے ہم عصر بنی اسرائیل کو قیاس کرنا درست نہیں ۔ اگر اس وقت وہ اتنے سخت اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہوتے تو اﷲ تعالیٰ ان کو اپنے کام کے لیے منتخب ہی نہ فرماتا۔ (ترجمان القرآن،جولائی ۔ اگست۱۹۴۳ء)