جواب
حضرت ہارون؈ نے جو کچھ حضرت موسیٰ ؈ سے کہا تھا،اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اصل لیڈر اور ان کے جماعتی نظام کے ذمہ دار حضرت موسیٰ ؈ تھے اور حضرت ہارون ؈ ان کے مددگار کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت موسیٰ ؈کی غیرموجودگی میں حضرت ہارون ؈ کسی غیر معمولی اہمیت رکھنے والے معاملے پرکوئی فیصلہ کن کارروائی کرتے ہوئے اس بِنا پر ڈرتے تھے کہ کوئی ایسی بات ان سے نہ ہوجائے جو اصل ذمہ دار شخص کی پالیسی کے خلاف ہو۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ ؈ نے ان کی معذرت کو قبول کرلیا تھا۔
مسیح ؈ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے،وہ بالکل دوسرے حالات سے متعلق ہے۔اس وقت کوئی اسلامی نظامِ جماعت یہودیوں میں موجود نہیں تھا کہ حضرت مسیح ؈ کے اس قول کو یہ معنی پہنائے جاسکیں کہ آپ اس نظامِ جماعت کو درہم برہم کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ بخلاف اس کے حضرت ہارون ؈ کے سامنے ایک مکمل اسلامی نظامِ جماعت موجود تھا اور وہ بجا طورپر اس امر میں احتیاط برت رہے تھے کہ کہیں ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جو اس نظامِ جماعت کو درہم برہم کردے۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۔اگست۱۹۴۳ء)