ایک شخص مثال کے طورپر کپڑے کاکاروبارکرتا ہے اور آڑہت سے ہر ماہ ایک ہزار روپے کے کپڑے لاکر فروخت کرتا ہے۔ اب آڑہت والا کہتا ہے کہ اگر تم ہر ماہ دوہزار روپے کے کپڑے خریدوگے تومیں الگ سے پچاس روپے بطورسوددوں گا۔ مسلمان تاجر کہتا ہے کہ تم سود کی شرط نہ لگائو،بلکہ
(الف) تم میری دکان کے کرایے کے طورپر پچاس روپے دو۔
(ب) میرے ملازم کی تنخواہ کے طورپر پچاس روپے دو۔
(ج) اپنا مال کچھ کم نرخ پرمجھے دو،الگ سے روپے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
مثال کے طورپر پرلٹھے کا جوتھان تم مجھے پچاس روپے میں دیتے ہووہ اڑتالیس روپے میں دو۔
مجھے بتائیے کہ یہ تینوں صورتیں ناجائز ہیں، یا جائز، یا ان میں سے کوئی ایک صورت جائز ہے؟
جواب
آپ نے جو صورتیں لکھیں ہیں ان میں سے صرف تیسری صورت جائز ہے۔ ’الف‘ اور’ب‘ دونوں ناجائز ہیں۔ تیسری صورت اس لیے جائز ہے کہ فی الواقع یہ کوئی شرط نہیں ہے بلکہ مال کے نرخ میں کمی بیشی کا سوال ہے جس کو مول تول کہتے ہیں۔ عربی میں اس کے لیے ’مساومہ‘ اور ’سوم‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ پہلی دونوں صورتیں اس لیے ناجائز ہیں کہ وہ دونوں شرطیں ایسی ہیں کہ اس میں اصل معاملہ سے الگ خریدار کو نفع پہنچے گا اور بیع وشرا میں ہرایسی شرط ناجائز ہے جس کا اصل معاملہ اقتضانہ کرے اور علیحدہ سے بائع یامشتری یا دونوں کو فائدہ پہنچ رہاہو۔ بیع میں اس طرح کی شرط سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ مثال کے طورپر کوئی شخص کپڑا اس شرط پرخریدے کہ بائع اس کو کاٹ چھانٹ کر خریدار کا لباس بھی تیار کردے گا تو یہ بیع فاسد ہوجائے گی، اس لیے کہ کپڑے کو تراش کر لباس تیارکرنے کا اصل معاملہ سے تعلق نہیں ہے۔ یعنی کپڑے کی خریدوفروخت اس بات کی مقتضی نہیں ہے کہ بیچنے والا اس کا لباس بھی تیار کردے اور شرط کا فائدہ خریدار کو پہنچ رہاہے۔ یا فرض کیجیے کوئی شخص اپنا مال اس شرط پربیچے کہ خریدار اس کو دس روپے قرض بھی دے گا تو یہ بیع بھی فاسد ہوگی کیوں کہ اس شرط کا فائدہ بائع کو پہنچ رہاہے۔ یا چمڑے کی خریدوفروخت اس شرط پرہوکہ خریدار بائع کوکچھ قرض دے گا اور بائع اس چمڑے کا بیگ تیار کرکے خریدار کے حوالے کرے گا۔ یہ بیع بھی اس لیے فاسد ہوگی، کہ اس شرط کا فائد دونوں کو پہنچ رہاہے۔ غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاروبار کی متعدد خرابیوں کو ختم کرنے کےلیے نامناسب شرائط کی ممانعت کی گئی ہے مثلاً۔(الف) بعض صورتوں میں شرط سود کے ہم معنی ہوتی ہے (ب) بعض صورتوں میں کوئی شرط لگاکر کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا مقصود ہوتاہے۔(ج) بعض صورتوں میں بائع اور مشتری کے درمیان جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتاہے۔ (اگست ۱۹۶۹ء، ج ۴۳،ش۲)