جواب
انشورنس کے بارے میں شرع اسلامی کی رُو سے تین اصولی اعتراضات ہیں جن کی بِنا پر اسے جائز نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
اوّل کہ یہ انشورنس کمپنیاں جو روپیا پریمیم (premium)کی شکل میں وصول کرتی ہیں ،اس کے بہت بڑے حصے کو سودی کاموں میں لگا کر فائدہ حاصل کرتی ہیں اور اس ناجائز کاروبار میں وہ لوگ آپ سے آپ حصہ دار بن جاتے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے آپ کو یا اپنی کسی چیز کو اُن کے پاس انشور کراتے ہیں ۔
دوم یہ کہ موت یا حوادث یا نقصان کی صورت میں جو رقم دینے کی ذمہ داری کمپنیاں اپنے ذمے لیتی ہیں ،اس کے اندر قمارکا اصول پایا جاتا ہے۔
سوم یہ کہ ایک آدمی کے مرجانے کی صورت میں جو رقم ادا کی جاتی ہے،اسلامی شریعت کی رُو سے اس کی حیثیت مرنے والے کے ترکے کی ہے جسے شرعی وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔مگر یہ رقم ترکے کی حیثیت میں تقسیم نہیں کی جاتی بلکہ اس شخص یاان اشخاص کو مل جاتی ہے جن کے لیے پالیسی ہولڈر نے وصیت کی ہو۔حالاں کہ وارث کے حق میں شرعاً وصیت ہی نہیں کی جاسکتی۔
رہا یہ سوال کہ انشورنس کے کاروبار کو اسلامی اصول پر کس طرح چلایا جاسکتا ہے، تو اس کا جواب اتنا آسان نہیں جتنایہ سوال آسان ہے۔اس کے لیے ضرورت ہے کہ ماہرین کی ایک مجلس جو اسلامی اصول کو بھی جانتی ہو اور انشورنس کے معاملات کو بھی سمجھتی ہو،اس پورے مسئلے کا جائزہ لے اور انشورنس کے کاروبار میں ایسی اصلاحات تجویزکرے جن سے کاروبار چل بھی سکتا ہو اور شریعت کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔ جب تک یہ نہیں ہوتا تو ہمیں کم ازکم یہ تسلیم تو کرنا چاہیے کہ ہم ایک غلط کام کررہے ہیں ۔غلطی کا احساس بھی اگر ہم میں باقی نہ رہے تو پھر اصلاح کی کوشش کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔
بے شک موجودہ زمانے میں انشورنس کی بڑی اہمیت ہے،اور ساری دنیا میں اس کا چلن ہے مگر نہ اس دلیل سے کوئی چیز حلال ہوسکتی ہے اور نہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے وہ سب حلال ہے یا اسے اس بنا پر حلا ل ہونا چاہیے کہ دنیا میں اس کا چلن ہوگیاہے۔ایک مسلمان قوم ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم جائز وناجائز میں فرق کریں اور اپنے معاملات کو جائز طریقوں سے چلانے پر اصرار کریں ۔ (ترجمان القرآن،اگست ۱۹۶۲ء)