بینک کا قرض

, ,

حکومت نے ان لوگوں کے لیے جو گزشتہ ایمرجنسی کا شکار ہوکر میسامیں چھ ماہ سے زائد جیل میں رہے ان کی معاشی حالت سدھارنے کے لیے ایک اسکیم جاری کی ہے اور اپنی ذمہ داری پر انہیں  بینک کے ذریعے چارفی صد منافع پرقرض،خواہ وہ نقدرقم کی شکل میں ہویا بہ شکل جنس (سامان مثلاً گاڑی، مشین وغیرہ ہو) دلائے گی۔

اس سلسلے میں مندرجہ ذیل وضاحت چاہتاہوں۔

جہاں تک مجھے علم ہے، شریعت میں تبادلہ جنس بالجنس کی صورت میں کمی بیشی جائز نہیں۔ مثلاً

۱-اگر ایک شخص ایک من گیہوں قرض اس شرط پرلیتا ہے کہ مدت معینہ پراسے بدلے میں ایک من پانچ سیریادس سیرگیہوں ہی واپس کرے گاتو یہ بیع جائز نہیں۔ ہاں اگر اس ایک من گیہوں کے بدلے وہ ایک من پانچ سیر یادس سیر چاول واپس کررہاہے تو شرعاً یہ درست ہوگا کیوں کہ یہاں جنس بدل گئی ہے۔

۲- یا جب اس نے گیہوں قرض لیاتھا اس وقت اس کی نقد قیمت ایک من کی چالیس روپے تھی لیکن چوں کہ اس نے ادھار لیا ہے اس کے لیے وہ مدت معینہ پرچالیس کے بجائے پچاس روپے ادا کرتا ہے تو یہ بیع بھی جائز ہوگی۔

الغرض تبادلہ جنس بغیر الجنس اورادھاربیع وشرامیں (نقد کی بہ نسبت ) اضافہ شرعاً درست ہے۔

مندرجہ بالا اصول کے تحت کیا ایک مسلمان کے لیے یہ جائز ہوگا کہ حکومت کی اس اسکیم سے فائدہ اٹھائے اوربینک سے نقد رقم نہ لے کر کوئی جنس مثلاً گاڑی یا مشنری کا سامان لے اور کچھ اضافہ کے ساتھ اس کی قیمت رقم کی شکل میں طے شدہ وقت کے مطابق قسط وار ادا کرے۔ تفصیل اس کی اس طرح ہوگی

میں اس اسکیم کے تحت بینک سے گاڑی لینا چاہتاہوں جس کی نقد قیمت پچاس ہزار روپے ہے لیکن چوں کہ میں ادھارلوں گااس لیے بینک ہم سے اس کی نقد قیمت میں چارفی صد سالانہ منافع لگاکر چھپن ہزارروپے پانچ سال میں قسط واروصول کرے گا۔ کیا یہ بیع جائز ہوگی؟

جواب

چوں کہ آپ نے اصل سوال سے پہلے تمہید میں کچھ باتیں لکھی ہیں اس لیے میں اصل جواب سے پہلے چند باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ان کی روشنی میں جواب کو سمجھنا آسان ہوجائے۔
۱- آپ نے قرض اوربیع میں خلط ملط کردیا ہے۔ قرض کے احکام اورہیں، بیع کے احکام اور ہیں، دونوں کے احکام ایک نہیں ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ ایک شخص گیہوں ایک من قرض اس شرط پرلیتا ہےالخ۔پھر آگے اسی سلسلہ کلام میں لکھتے ہیں تویہ بیع جائز نہیں۔ دوسری صورت میں لکھتے ہیں یا جب اس نے گیہوں قرض لیا تھا۔ پھر اخیرمیں لکھتے ہیں تویہ بیع بھی جائز ہوگی۔ آپ کا اصل سوال بھی یہ ہے کیا یہ بیع جائز ہوگی؟ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ قرض الگ معاملہ ہے اور بیع الگ معاملہ ہے۔ قرض کو بیع سمجھنا یا کہنا صحیح نہیں ہے۔اسی خلط ملط کی وجہ سے آپ الجھن میں پڑگئے ہیں۔
۲- بیع جنس الجنس میں دوچیزیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ نقد ہوادھارنہ ہو اور دوسری یہ کہ برابر ہو،کمی بیشی نہ ہو۔مثلاً ایک شخص گیہوں کو گیہوں کے بدلے میں بیچنا چاہتاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک من گیہوں کے بدلے میں ایک من گیہوں لے، اس سے زیادہ یا کم نہ لے اور یہ کہ بیع وشرانقد نقد ہو،ادھارنہ ہو۔
۳- بیع جنس بغیر الجنس میں ایک چیز ضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ نقد ہو،ادھار نہ ہوالبتہ نقد بیع کی صورت میں کمی بیشی جائز ہے۔مثلاً ایک من گیہوں دومن جو کے بدلے میں نقد فروخت کیا جاسکتا ہے لیکن ادھارفروخت نہیں کیاجاسکتا۔
۴-قرض کی صورت میں واپسی اسی چیز کی ہوتی ہے جو قرض لی گئی ہے، ایسا نہیں ہےکہ مثلاً قرض توگیہوں لیاجائے اورواپس اس کی قیمت کی جائے یا قرض توگیہوں لیاجائے اورواپس چاول کیاجائے۔ قرض پربھائو کے گھٹنے بڑھنے کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔
۵- قرض کی واپسی میں کوئی مشروط اضافہ یا کوئی نفع سود ہوتاہے۔
ان پانچ باتوں کو سامنے رکھ کر اصل مسئلے پرغورکیجیے۔ بینک چارفی صد متعین اور مشروط اضافے پرقرض دےرہاہےخواہ وہ رقم کی شکل میں ہو یا سامان کی شکل میں۔ یہی وجہ ہے کہ سامان دینے کی شکل میں بھی قیمت پرچارفی صد کا اضافہ کرکے سامان دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آئنداگر اس سامان کی قیمت میں اضافہ ہوجائے تب وہ اضافہ کرےگا۔ اس کے علاوہ سامان لینے والا اس وقت تک اس کا مالک نہیں ہوتا جب تک قرض کی پوری رقم مع سود ادا نہ ہوجائے۔اگرشرط کی خلاف ورزی ہویا کوئی شخص تمام قسطیں ادا نہ کرسکے تو بینک سامان پرقبضہ کرلیتا ہے اور ادا کی ہوئی رقم سوخت ہوجاتی ہے۔ غورکیجیے کیا یہ کسی بیع کی شکل ہوسکتی ہے؟ اسی لیے بینک اس کو قرض ہی کہتا ہے، بیع نہیں کہتا۔
ان وجوہ سے بینک سے جو قرض ملے گا وہ سودی قرض ہوگا،خواہ رقم کی صورت میں قرض لیاجائے یا سامان کی شکل میں۔ آپ اگر یہ قرض لینے کے لیے مجبورہوں تو لے سکتے ہیں، ورنہ جیسا کہ آپ خود جانتے ہیں سودی قرض لینا جائز نہیں ہے،صرف مجبوری کی حالت میں لیاجاسکتاہے۔(نومبر؍دسمبر۱۹۷۸ء،ج۶۱،ش۵۔۶)