تاریخ کا دورِ کمال ، تاریخ اسلام کا دورِ اولین

آپ نے رسالہ’’ اسلام اور جاہلیت‘‘ کے اخیر میں یہ فرمایا ہے کہ ’’تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریے پر تیار ہوگئے تھے، نہ ان سے بہتر افراد کبھی رُوئے زمین پر پائے گئے، نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔‘‘اگر صاف گوئی پر معاف فرمایا جائے تو میں نہایت ادب وانکسار سے گزارش کروں گا کہ آپ نے یہاں طرف داری سے کام لیا ہے،یہاں تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔ میں صرف ایک بھگوان کرشن کی شخصیت پیش کروں گا، جن کی دو حرفی تقریر نے کہ: ع فعل سے وابستگی واجب نہیں تیرے لیے فرض کی تکمیل کر، خواہش صلہ کی چھوڑ دے ویر اَرجن جیسے مجاہد پر ایک ہیبت کا عالم طاری کر دیا اور اس کے بازو میں برقی طاقت پیدا کردی، اور اس تاریخی واقعے کی یادگار میں گیتا جیسی ممتاز کتاب ظہور میں آئی۔بڑے بڑے مخالف بھی کرشن بھگوان کی زندگی میں کوئی اخلاقی رخنہ نہ پیش کرسکے ۔’’بھگوان ‘‘کا لفظ میں نے صفتی معنوں میں لیا ہے،اوتار کے معنوں میں نہیں ۔ آپ نے ایسی شخصیتوں کو نظر انداز کرکے اسلام سے پہلے کی تاریخ کے معاملے میں تعصب کا ثبوت دیا ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ میری آنکھیں ترستی رہیں کہ آپ کسی جگہ کسی ہندو کیرکٹر کا نمونہ پیش کریں ،مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! آپ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں میرے خطوط اور اپنے جوابات شائع فرما کر اسلامی پریس کے لیے دل چسپی کا سامان مہیا کردیا۔ دہلی کا ایک روزنامہ’’حکومت الٰہیہ اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے ان خطوط کا حوالہ دے کر آپ پر خوب برسا ہے۔عجیب منطق ہے کہ دیدہ دانستہ عین اسلامی تعلیم کو جھٹلایا جارہا ہے۔ مرحوم مولانا محمد علی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’جہاں تک مسلمانوں کے ایمان کا تعلق ہے ،میں ایک فاسق وفاجر مسلمان کو گاندھی جی سے بہتر سمجھتا ہوں ۔‘‘لیکن آپ نے اصل اسلام پیش کرکے اور مسلمانوں کی ایمانی قوت کو الم نشرح کرکے نہ صرف مسلمانوں کی ،بلکہ تمام انسانیت کی زبردست خدمت انجام دی ہے۔ آپ کے اسلامی لٹریچر کے طفیل وہ محسوس کررہے ہیں کہ انھیں کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا ہوگئے ہیں ۔مگر میری گزارش یہ ہے کہ جب آپ کی حکومتِ الٰہیہ ہر فر دِبشر کے لیے انسانیت کے ناطے سے یکساں جاذبیت رکھتی ہے اور آپ کا منشا بھی یہی ہے کہ بلحاظ مذہب وملت اسے عوام تک پہنچایا جائے ۔پھر آپ اپنی مساعی(struggle) کو صرف مسلمانوں تک کیوں محدود رکھتے ہیں ؟
جواب

چیز جس کی آپ نے شکایت کی ہے،اس پر آپ کو بجاے مجھ سے شکایت کرنے کے خود ہندوئوں سے شکایت کرنی چاہیے تھی اور مجھے بھی اس معاملے میں ان سے شکایت ہے۔ انھوں نے خود اپنے بزرگوں کی سیرتوں کو محفوظ نہ رکھا بلکہ ان کی حقیقی زندگیوں کو افسانوں سے خلط ملط کردیا، اور اس دجّال سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہودیوں کی طرح انھوں نے بھی اپنی اخلاقی کمزوریوں کو درست ثابت کرنے کے لیے بدترین اخلاقی کمزوریاں اپنے بزرگوں کی طرف منسوب کردیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندستان کے جن بڑے بڑے اشخاص کی طرف نگاہیں اس توقع سے اُٹھتی ہیں کہ انھیں اخلاقی پاکیزگی اور عظمتِ انسانیت کے نمونے کی حیثیت سے لیا جاسکے گا، ان سب کے واقعاتِ زندگی تاریخی حیثیت سے مشتبہ بھی ہیں اور افسانویت سے آلودہ بھی۔ اور جن مآخذ کی سند سے ان کے روشن پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں ،انھی کی سند سے ایسے تاریک ترین پہلو بھی آمنے آجاتے ہیں جنھیں کسی بڑے انسان کی طرف منسوب کرنا تو درکنار، کسی گھٹیا انسان کی طرف منسوب کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔اسی وجہ سے،نہ کہ کسی قومی یا مذہبی تعصب کی وجہ سے میں مجبوراًعربی تاریخ کے صرف ایک ہی دور کو کمالِ انسانیت کے نمونے کی حیثیت سے پیش کرتا ہوں ، کیوں کہ وہ تاریخی حیثیت سے نہایت معتبر ہے۔افسانویت کا اضافہ کرنے کی اگر اس میں کوشش کی بھی گئی ہے تو تاریخی تنقید کے ایسے ذرائع موجود ہیں جن سے اس آلودگی کو پورے منصفانہ طریقے سے چھانٹ کر الگ کیا جاسکتا ہے، اور پھروہاں کسی اخلاقی گندگی کا سرے سے نام ونشان ہی نہیں ملتا۔ یہ تو خدا کی دَین ہے جس کے نصیب میں آ جائے۔ اگر عرب نسل کے ایک مختصر گروہ کو یہ فضل نصیب ہوگیا تو اس پر کسی افسوس کی ضرورت نہیں اور نہ افسوس کرنے سے کچھ حاصل ہے ۔بلکہ اگر آپ ہندستانی یا ہندو کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو انسانیت کے لیے جو چیز قابلِ فخر ہے،اس پر آپ کو بھی اسی طرح فخر کرنا چاہیے جس طرح ایک عرب فخر کرسکتا ہے،کیوں کہ انسانیت کے نقطۂ نظر سے جو تاج کسی انسان یا کسی انسانی گروہ کو پہنایا گیا ،وہ ہم سب انسانوں کے لیے تاجِ فخر ہی ہے، خواہ وہ کسی عرب انسان کے سر پر نظر جائےآئے یا ہندستانی انسان کے سر پر! (ترجمان القرآن ، مارچ- جون۱۹۴۵ء)