تاڑ،کھجور کا اجارہ اور تاڑی کی حرمت

,

ازراہ کرم درج ذیل سوالات کا جواب شائع کرکے مستفید فرمائیں۔

۱- تاڑ اورکھجورکی تاڑی کاشمار مسکرمیں ہےیا نہیں ؟ اگر ہے تواس کی خریدوفروخت یاٹھیکہ یا بندوبستی کرکے نفع حاصل کرنا درست ہوگا یا نہیں ؟یا غیرمسلموں کو تاڑاور کھجورکے درخت مفت اس سے نفع حاصل کرنے کے لیے دے دیے جائیں ؟

واضح رہے کہ ان درختوں کی بندوبستی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ درخت کو چھیل کر تاڑی کشیدکرنے سے پہلے ہی چار چھ روپے سالانہ کے حساب سے رقم وصول کرلی جاتی ہے۔ حالاں کہ یہ بالکل معلوم نہیں کہ درخت میں کتنی تاڑی ہے۔

۲- اگر یہ طے شدہ ہے کہ تاڑ اور کھجورسے تاڑی ہی کشیدکی جائے گی جس کو لوگ نشے کے لیے خریدیں گے تو کیا اس صورت میں بھی اس کی بندوبستی درست ہوگی؟

۳- بعض لوگ کہتے ہیں کہ انگور سے بھی شراب بنائی جاتی ہے تو کیا انگور کی بندوبستی ناجائز ہوگی؟ کیا تاڑاورکھجورکے درخت کو انگورپرقیاس کرنا صحیح ہے؟

جواب

۱-ہرسیال چیز جس میں شراب جیسا نشہ پیداہوجائے، مسکرہے۔ اس لیے تاڑ اور کھجور کے رس میں بھی جب نشہ پیداہوجائے تو وہ مسکرہوجاتاہے۔اس کا پینا مسلمانوں کے لیے حرام ہے اور نشہ آور ہوجانے کے بعد اس کی خریدوفروخت بھی جائز نہیں ہے۔
۲- تاڑ اورکھجورکے اندر جورس مخفی اورنامعلوم ہے اس کی بیع تواس لیے ناجائز ہوگی کہ مبیع (جو چیز فروخت کی جارہی ہے) مجہول ہے۔ البتہ تاڑاور کھجورکو اجارے پردینا جائز ہوگا یا نہیں، یہ قابل غورمسئلہ ہے۔ یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ بیع اور اجارہ دوالگ الگ چیزیں ہیں ؟ دونوں کی تعریفیں بھی الگ الگ ہیں اور احکام بھی مختلف ہیں۔ تاڑ اور کھجورکے درختوں سے جو رس نکلتا ہے وہ مسکرنہیں ہوتا، نشہ اس میں بعد کو پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے درختوں کا اجارہ کسی ناجائز چیز کا اجارہ نہیں ہے۔یہ مسئلہ قابل غور اس بناپر ہے کہ فقہانے صرف درختوں کے اجارے کو ناجائز لکھا ہے۔مگر اس کے عدم جواز کی دلیل انھوں نے یہ دی ہے کہ اس کا تعامل نہیں ہے۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر درختوں کے اجارے کاتعامل ہوجائے تواس کو جائز ہو نا چاہیے۔
شیرخواربچوں کو دودھ پلانے کے لیے کسی عورت سے اجرت پر معاملہ کرنا بہ نص قرآنی جائز ہے۔ سورۂ البقرہ میں کہاگیاہے ’’اگرتمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہوتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطے کہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرووہ معروف طریقے پرادا کردو۔‘‘(آیت۲۳۳)
نیزسورۂ الطلاق آیت ۶ میں ہے
فَاِنِ ارْضَعْنَ لَکُمْ فَاَتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ
’’پھر وہ عورتیں اگرتمہارے لیے (بچے کو اجرت پر) دودھ پلادیں توتم ان کو (مقررہ ) اجرت دو۔‘‘
ان آیتوں کو پڑھ کر ذہن اس طرف جاتا ہے کہ جب اجارے پر بچے کو دودھ پلوانے کی منفعت حاصل کرنا جائز ہے تو تاڑ اور کھجورسے اس کے رس کی منفعت حاصل کرنے کے لیے بھی اجارہ جائز ہونا چاہیے۔ رہی تعامل کی بات تو ہندوستان میں اس کا تعامل بھی موجود ہے۔
۲- ہاں اس صورت میں بھی اس کو ٹھیکہ یا اجارہ پردینا درست ہے۔اس لیے کہ ان درختوں سے نکلنے والا رس بذات خود مسکرنہیں ہے نشہ اس میں بعد کو پیداہوتا ہے۔ لیکن اس طے شدہ صورت میں اس کا اجارہ کسی غیرمسلم کو دینا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی مسلمان وعدہ کرے کہ وہ نشہ آور تاڑی فروخت نہیں کرے گا بلکہ اس سے سرکہ بناکر فروخت کرے گا یا اس رس کا کوئی دوسرا جائز مصرف لے گا تو اس کو بھی یہ درخت اجارے پردیے جاسکتے ہیں۔
۳- بعض لوگوں کا قیاس اس حدتک صحیح ہے کہ جس طرح انگورکارس بذات خود مسکرنہیں ہے بلکہ اس کومسکربنایا جاتاہے، اسی طرح تاڑ اور کھجورکا رس بذات خود مسکرنہیں ہے بلکہ سکربعد میں پیدا ہوجاتاہے، اس لیے جس طرح انگورکی بیع جائز ہے اسی طرح تاڑ اور کھجورکی بندوبستی بھی جائز ہونی چاہیے۔
(فروری ۱۹۶۹ء،ج۴۲،ش۲)