تبلیغی جماعت کے ساتھ تعاون

ایک بات عرصے سے میرے ذہن میں گشت کررہی ہے جو بسا اوقات میرے لیے ایک فکر کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ میں اﷲ سے خصوصی طور پر اس امر کے لیے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذی علم ا ور باصلاحیت حضرات کو اس طرف متوجہ کردے جن کی کوششوں میں بہت سی تاثیر پوشیدہ ہے،جن کے قلب ودماغ کی طاقت سے بہت کچھ بن سکتا ہے اور بگڑ سکتا ہے،اُمت کی اصلاح بھی ہوسکتی ہے، تفرقے بھی مٹ سکتے ہیں ،تعمیری انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے، اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی قوت فکر کی یک جائی اور ہم آہنگی کے لیے ہم اﷲ تعالیٰ سے دُعا گو ہیں ۔ جس بات کو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ بہت بڑی اورالجھی ہوئی ہے اور مجھ جیسے کم صلاحیت انسان کے لیے یہ ہرگز زیبا نہیں کہ ایسے اہم معاملے پر قلم اٹھائے۔لیکن اﷲ تعالیٰ کی مدد اور اس کی رحمت کے بھروسے پر ہم نے یہ مخاطبت شروع کی ہے۔ شاید کہ وہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کردے۔ آپ نے اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ یہ کام ہم نے اﷲ کے لیے اور اﷲ کے ہی بھروسے پر شروع کیا ہے،اگر مجھ سے غلطی ہورہی ہے تو وہ میری اصلاح کردے۔ نیز آپ نے اس طرح کے اختلاف پر بھی فراخ دلی کے ساتھ غور وخوض کرنے کا علی الاعلان اطمینان دلایا ہے جو حق پسندی اور نیک نیتی پر مبنی ہو،اور ہم اس بات پر پوری طرح مطمئن ہیں کہ آپ نے واقعتاً ایسے مواقع پر کسی طرح کی تنگ دلی کا اظہار نہیں فرمایا ہے۔ آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ میں نے دین کا ابتدائی شعور تبلیغی جماعت سے حاصل کیا۔اب تک میرا تعلق اس جماعت سے قائم ہے۔اﷲ اس کو قائم رکھے اور اس سے زیادہ کی توفیق عطا فرمائے۔لیکن اس کے ساتھ ہی میرا گہرا ربط جماعت اسلامی سے بھی پیدا ہوچکا ہے اور اب میرا زیادہ وقت اسی جماعت کے کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ میں فخر نہیں کرتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اب ایک زندہ جماعت ہے اور دین دار طبقے کی نگاہ بھی اب اس طرف مرکوز ہو رہی ہے۔ لیکن جو بات کہ میرے نزدیک انتہائی افسوس ناک ہے،وہ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی کشاکش ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنے تبلیغی احباب سے جو اس حلقے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، گفتگو کی اور بالکل بے تکلفانہ یہ اعتراض کیا کہ آپ غیر مسلموں کے قبول اسلام اور ہدایت کے لیے دعا کرسکتے ہیں لیکن آپ کے دل میں وسعت نہیں ہے تو صرف جماعت اسلامی کے لیے۔آپ ایک فاسق وفاجر مسلمان کے عقیدہ وعمل کی اصلاح کے لیے ہرطرح کی محنت کرسکتے ہیں اور مشقت اٹھا سکتے ہیں ۔ان کی ہر بداخلاقی اور ٹھوکر کو برداشت کرسکتے ہیں ۔ لیکن جماعت اسلامی جو آپ کی نگاہ میں گمراہ ہے ،وہ قابل توجہ نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت آپ کے نزدیک ہے۔ ان سے ملنا، ان کی باتوں کو سننا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کو سمجھنا بھی آپ کے نزدیک گمراہی کو دعوت دینا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے احباب کی حالت بھی اس لحاظ سے ان سے کچھ بہترنہیں ہے۔ہم اپنے تجربے کی بِنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغی لوگوں کو دیکھ کر ان میں ایک حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم نے ہر چند ان سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ تبلیغی جماعت دین ہی کی تبلیغ تو کرتی ہے، کوئی بددینی تو نہیں پھیلاتی،اگرصرف کلمہ اور نماز کی ہی حد تک مان لیا جائے تو کیا یہ دین کی تبلیغ نہیں ہے؟کیا یہ بنیادی چیز نہیں ہے جس کے بغیر کوئی مسلمان خواہ وہ علم وعمل کے کسی مقام پر ہو،زندہ نہیں رہ سکتا؟ کیا ان کی شب وروز کی محنتیں خالصتاً لوجہ اﷲ نہیں ہیں ۔ ہم نے مانا کہ ان کے دماغ میں وہ وسعت نہیں ہے، لیکن ایک کمزور اور نحیف شخص کی کمزور سی محنت جو دین کے لیے ہو، کیا یہ اﷲ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے؟میں تو کہتا ہوں کہ ایک سادہ لوح انسان جو اپنی تمام بے وقوفیوں اور کمزوریوں کے ساتھ اﷲ کی رضا کے لیے اس کے دین کی سربلندی کی کوشش کرے،وہ شاید اس اعتبار سے بڑھ جائے گی کہ اس میں آمیزش کا امکان نہیں ہے۔بخلاف اس کے ایک ذی علم اور باصلاحیت انسان کے اس توشۂ معاد میں آمیزش کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس کو اپنے علم وعمل وحکمت پر تکبر آسکتا ہے۔ بہرحال یہ بات تو اپنے اپنے لیے ہوئی۔جہاں تک دینی مفاد کا تعلق ہے، نہ معلوم میرا یہ خیال کس حد تک صحیح ہے کہ ایسے ہی لوگ اگران کے ذہن میں اسلامی نظام کی اہمیت پیدا ہوجائے تو میرے لیے ممد ہوسکتے ہیں ۔ ایسا مخلص گروہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی ہوس نہ کرے بلکہ جو کچھ سوچے سمجھے اور چاہے وہ صرف آخرت کے لیے، اس سے زیادہ مفید انسان بنے بناے اور کہاں مل سکتے ہیں ۔ہم اس پر اصرار تو نہیں کرسکتے لیکن اپنے علم وفہم کی حد تک اس خیال کو بہت قریب پاتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا قیام ایسے ہی لوگوں پر تھا۔ میری اس مخاطبت کااصل مدعا یہ ہے کہ اگر ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور ان کو بڑھ کر اپنا لینے کی کوشش کریں تو یہ کس حد تک ممکن العمل او رموجب خیر ہوگا؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ ایک جماعت دوسرے میں ضم ہوجائے۔نہیں بلکہ جو جس طور پر کام کررہا ہے،کرتا جائے۔اپنے اپنے حدود میں رہتے ہوئے ہم ان کے ہم درد ہوجائیں اور وہ ہمارے لیے دعا گو بن جائیں ۔ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان سے اختلاف کامٹ جانا ہی بہت بڑی چیز ہے۔
جواب

دوسری دینی جماعتوں کے متعلق میر انقطۂ نظر ہمیشہ سے یہ رہا ہے اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا ہوں کہ جو جس درجے میں بھی اﷲ کے دین کی کوئی خدمت کررہا ہے، بسا غنیمت ہے۔ مخالف دین تحریکوں کے مقابلے میں دین کا کام کرنے والے سب حقیقت میں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں ، اور انھیں ایک دوسرے کو اپنا مددگار ہی سمجھنا چاہیے۔ رقابت کا جذبہ اگر پیدا ہوسکتا ہے تو اسی وقت جب کہ ہم خدا کے نام پر دکان داری کررہے ہوں ۔ اس صورت میں تو بے شک ہر دکان دار یہی چاہے گا کہ میرے سوا اس بازار میں کوئی اور دکان نظر نہ آئے۔لیکن اگر ہم یہ دکان داری نہیں کررہے ہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ خدا کا کام کررہے ہیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے سوا کوئی اور بھی اسی خدا کا کام کررہا ہے۔اگر کوئی کلمہ پڑھوا رہا ہے تو وہ بھی بہرحال خدا ہی کی راہ میں ایک خدمت انجام دے رہا ہے اور اگر کوئی وضو اور غسل کے مسائل بتا رہا ہے تو وہ بھی اس راہ کی ایک خدمت ہی کررہا ہے۔ آخر اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے رقابت کیوں ہو اور ہم ایک دوسرے کی راہ میں روڑے کیوں اٹکائیں ؟ کلمات خبیثہ کی اشاعت کرنے والوں کے مقابلے میں تو کلمۂ طیبہ پڑھوانے والا بھی مجھے محبوب ہی ہونا چاہیے۔
میں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں میں بھی ہمیشہ یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے خلاف کسی روش کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا ہے۔اگر آپ نے کہیں جماعت میں اس سے مختلف کوئی جذبہ وعمل پایا ہو تو مجھے تعین مقام واشخاص کے ساتھ اس کی خبر دیجیے تاکہ میں اس کی اصلاح کرسکوں ۔
خاص طور پر تبلیغی جماعت کا چوں کہ آپ نے ذکر کیا ہے،اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ اس جماعت کے حق میں بھی میں نے ہمیشہ اپنے دل میں جذبۂ خیر ہی کو جگہ دی ہے اور اپنی زبان و قلم سے اس کے لیے کلمۂ خیر ہی ادا کیا ہے۔مولانا محمد الیاس مرحوم کی زندگی میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔میوات کے علاقے میں ان کے ساتھ دورہ کرکے ان کے کام کا قریب سے مطالعہ کیا تھا۔اس کے بعد ان کے کام میں جو پہلو میں نے خیر وبرکت کے محسوس کیے تھے،ان کا ’’ترجمان‘‘ کے ذریعے سے تفصیلی تعارف کرایا تھا، ({ FR 978 })اور جن پہلوئوں سے کوئی کمی یا تشنگی محسوس کی تھی، انھیں خاموشی کے ساتھ صرف مولانا مرحوم کی خدمت میں عرض کردینے پر اکتفا کیا تھا۔
اس کے بعد سے آج تک کوئی مثال اس امر کی پیش نہیں جاسکتی کہ میں نے اس جماعت کے خلاف یا اس کے راہ نمائوں کے خلاف کوئی بات کبھی کہی ہو یا لکھی ہو، یا جماعت اسلامی کے کارکنوں نے کبھی اس کے کام میں روڑے اٹکائے ہوں ۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تبلیغی جماعت کا رویہ میرے اور جماعت اسلامی کے ساتھ اس سے بہت مختلف رہا ہے۔ اس کے عام کارکنوں ہی نے نہیں ،اس کے اکابر تک نے جماعت اسلامی کے ساتھ متعدد مواقع پر ایسی روش اختیار کی ہے جس کی مجھے ایک دفعہ تحریری شکایت بھی کرنی پڑی۔ ({ FR 980 }) مگر انھوں نے کوئی اصلاح نہ کی۔ حال میں اس کے ایک ممتاز راہ نما نے اپنے رسالے میں مجھ پر اور جماعت اسلامی پر پے درپے جو عنایات فرمائی ہیں ، وہ بھی آپ نے دیکھی ہوں گی۔ پچھلے دنوں مشرقی پاکستان میں یہ حضرات جماعت اسلامی کے خلاف علماے دیو بند کے فتووں کی کاپیاں بھی بڑی تعداد میں پھیلا چکے ہیں ۔حالاں کہ وہاں کی بڑھتی ہوئی بے دینی کی زد کو روکنے کے لیے جماعت جو کوشش کررہی تھی،کوئی خیر خواہ دین اگر ان کوششوں میں اس کا ہاتھ نہ بٹا سکتا تھا تو کم ازکم اسے اس موقع پر بے دینوں کے مقابلے میں اس جماعت کو زک پہنچانے کی کوشش تو نہ کرنی چاہیے تھی۔
ان ساری باتوں کے بعد اب آپ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں ۔ دشمنی کا ہاتھ تو ادھر سے بڑھتا رہا ہے اور اب بھی بڑھا ہوا ہے۔ دوستی کا ہاتھ آخر کہاں جاکر اس سے ملے؟ افسوس کہ ان کے ہاں کا اکرام مسلم بھی فسق وفجور کے علم برداروں کے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں ہے۔ اور کچھ نہیں تو یہ حضرات کم از کم یہی سوچیں کہ جس طرح وہ مجھے اور جماعت اسلامی کو مطعون فرماتے ہیں اگر اسی طرح میں بھی ان کو اور ان کی جماعت کو مطعون کرنا شروع کردوں تو آخر کار اس کانتیجہ اس کے اور کیا ہوگا کہ عام لوگوں کی نگاہ میں دونوں ہی ساقط الاعتبار ہوکر رہیں گے اور دین کا کام کرنے کے لائق نہ ہم رہیں گے نہ وہ۔ یہی کچھ نتائج دینی جماعتوں کے ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے اور ایک دوسرے کی بیخ کنی کرنے سے برآمد ہوسکتے ہیں ۔ اس کا حاصل بجز اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی تمام اہل دین کی عزت اور ان کا اعتماد عوام کی نگاہ میں ختم ہوجائے اور لادینی کی تحریکیں اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں صبر کے ساتھ ان حملوں کو ٹالتا رہتا ہوں جو مجھ پر کیے جاتے ہیں ، اور جماعت کے لوگوں کو بھی صبر کی تلقین کرتا رہتا ہوں ،ورنہ ظاہر ہے کہ اگر میں ا ن حضرات کو مطعون کرنے پر اتر آئوں تو ان میں سے کوئی صاحب بھی زبان وحی سے کلام نہیں فرماتے ہیں کہ گرفت کرنے کے لیے کہیں کوئی گنجائش مجھے نہ مل سکے۔ (ترجمان القرآن ، ستمبر۱۹۵۸ء)