ہمارے یہاں کچھ امام ایسے ہوتے ہیں جو تراویح پڑھانے سے قبل اپنی اجرت طے کرلیتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو طے تو نہیں کرتے لیکن جس مسجد میں تراویح میں قرآن سناتے ہیں وہاں حافظ صاحب کو نذرانہ پیش کرنے کا دستور ہوتاہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اجرت کو اپنے ذاتی مصرف میں خرچ نہیں کرتے بلکہ کسی مسجد یا مدرسے کو بطور اعانت دے دیتے ہیں۔ مہربانی کرکے ان تینوں صورتوں کا شرعی حکم بیان کیجیے۔ نیز یہ کہ تنخواہ یا اجرت لینے والے امام کے پیچھے پنج وقتہ نماز پڑھنا بھی صحیح ہے یا نہیں ؟ میں نے بعض مضامین میں پڑھا ہے کہ عبادت پراجرت لینا جائز نہیں ہے۔ اس کے بعد موجودہ اماموں کے پیچھے نماز پڑھنے میں کھٹک محسوس ہوئی، پتا نہیں یہ نمازیں قبول بھی ہوں گی یا نہیں ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ مسجد جانا ترک کرکے گھرہی پر تنہا تراویح اور نمازیں پڑھ رہا ہوں لیکن سخت ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اس لیے جلد جواب عنایت فرمائیے اور مشورہ دیجیے کہ میں کیا کروں ؟
جواب
یہ بات صحیح ہے کہ اصلاً کسی عبادت پربھی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن شرعی ضرورت اورمجبوری کی بناپر پنج وقتہ نماز کی امامت اوراذان اور تعلیم قرآن وحدیث کی اجرت اورتنخواہ کو جائز قراردیا گیا ہے۔ مسجدوں میں اذان وجماعت کا انتظام اور اسی طرح تعلیم قرآن وحدیث کا اہتمام مسلمانوں کے فرائض دینی میں داخل ہے اور اب اس کا انتظام واہتمام تنخواہ دیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے اس کو فقہا ء نے جائز قراردیا ہے۔ تنخواہ داراماموں کے پیچھے پنج وقتہ نمازیں صحیح ہیں اور امید ہے کہ بارگاہ ایزدی میں قبول ہوں گی۔
تراویح میں پورا قرآن سننا نہ فرض ہے، نہ واجب، صرف مستحب ہے۔ اس لیے کسی کو اجرت دے کر پورا قرآن پڑھوانے کی کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے۔اسی لیے تراویح میں قرآن سنانے کی اجرت کوفقہا نے جائز قرار نہیں دیا ہے بلکہ ان کی تصریحات کے پیش نظر اس کے لیے کچھ لینا اوردینا دونوں گناہ ہے۔دینے والے اور لینے والے دونوں گنہ گار ہوتے ہیں۔ تراویح کے لیے صراحتاً اجرت طے کرنا،یاکسی ایسی مسجدمیں قرآن سنانا جہاں کامعمول اوردستور حافظ کو اجرت دینا ہو،دونوں کا حکم ایک ہے۔ یہ دونوں قسم کی اجرتیں ناجائز ہیں۔ قرآن سنانے کی اجرت جب ناجائزہے تواس ناجائز رقم کو کسی مسجد کی ضروریات پرصرف کرنے کے لیے بطور اعانت دینا ایک دوسرا جرم ہوگا۔ مسجد کے لیے تو حلال اور طیب رقم دینی چاہیے۔ حافظ کے لیے کچھ لینا صرف اس صورت میں جائز ہے کہ نہ وہ اجرت طے کرے اور نہ کسی مسجد کے معمول ودستورکی وجہ سے اس کاامیدوار ہو۔ ایسی صورت میں جو کچھ اس کو دیاجائے گا اس کی حیثیت ہدیہ اور انعام کی ہوگی اور اس کا قبول کرنا اس کے لیے جائز ہوگا۔
آپ نے یہ بالکل غلط روش اختیار کی کہ مسجد جانا ہی ترک کردیا اور فرض نمازیں بھی گھرہی پرادا کرنے لگے۔فرض نمازیں جیسا کہ اوپر لکھاگیا تنخواہ دار اماموں کے پیچھے بھی صحیح ہیں اس لیے فرض نماز یں مسجد کے اندر جماعت کے ساتھ ادا کیجیے۔ تراویح کے بارے میں میرامشورہ یہ ہے کہ اگر بے اجرت کاامام میسر نہ ہوتو کسی مسجد میں یا اگر ایسی کوئی مسجد بھی نہ ملے تواپنے گھرپر سورہ تراویح کاانتظام کیجیے۔
امید ہے کہ اگر آپ نرمی اورحکمت کے ساتھ اجرت والی نماز تراویح کی قباحت بتائیں گے تو متعدد افراد سورہ تراویح کے لیے آمادہ ہوجائیں گے اور جماعت ہوجائے گی۔ سورہ تراویح کی آسان شکل یہ ہےکہ سورۂ الفیل سے سورۂ الناس تک کی سورتیں دس رکعتوں میں پڑھ کرپھر انھیں سورتوں کو دوسری دس رکعتوں میں دہراکر بیس رکعتیں پوری کرلی جائیں۔ (۱۹۶۸ء،ج۴۰،ش۲)