ترجمہ قرآن بلامتن کی اشاعت کامسئلہ

محمد مرماڈیوک پکھتال کے انگریزی ترجمہ قرآن کو کسی امریکن فرم نے بغیر متن کے شائع کیا ہے۔ اسی کی دیکھا دیکھی یا ازخود بعض ہندوستانی مسلمان بھی بلامتن قرآن مجید کا ترجمہ شائع کررہے ہیں۔ برائے کرم آپ ازروئے شریعت واضح فرمائیں کہ ایسا کرنا کہاں تک صحیح ہے؟

جواب

اگرچہ جناب مستفسر کویہ بات معلوم ہے کہ اس طرح کےمسائل کا جوجواب، رسائل ومسائل میں دیا جاتا ہے اس کی حیثیت فتوے کی نہیں ہوتی، اس کے باوجود میں اس کی صراحت مناسب سمجھتا ہوں کہ مسئولہ مسئلے میں میرے جواب کی حیثیت محض ایک انفرادی رائے کی ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ ترجمہ قرآن بلامتن کی اشاعت کا مسئلہ خالص اجتہادی مسئلہ ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی دونوں اس کے جواز وعدم وجواز سے ساکت ہیں۔ اگر ان دونوں میں کسی ایک پہلو کی وضاحت ہوتی تو یہ مسئلہ سوال سے پہلے ہی حل ہوتا۔ اس کے علاوہ جہاں تک میرا مطالعہ ہے، جلیل القدر فقہائے امت کی کتابیں بھی اس بحث سے خالی ہیں۔ اب اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ اس مسئلے پرایک اصولی نظر ڈال کرجواب حاصل کیاجائے۔
اصولاً یہ بات مسلم ہے کہ قرآن کی ہدایات وتعلیمات اور اوامرونواہی اور احکام وقوانین کی واقفیت خود مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے اور انھیں غیرمسلموں تک پہنچانا بھی امت مسلمہ کا فریضہ ہے۔ اس بات کو تسلیم کرنے کے بعد دوسوال سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ تمام دنیا کے وہ مسلمان جو عربی زبان سے نابلد ہیں، مضامین قرآن سے کس طرح واقفیت حاصل کریں ؟ اس کی تین صورتیں سمجھ میں آتی ہیں 
۱-تمام مسلمانوں پرعربی زبان کی تحصیل لازم قراردی جائے۔
۲-ان کے لیے صرف الفاظ قرآن کی تلاوت کافی سمجھی جائے اوراس کے احکام ہر ملک کی اپنی زبان میں قرآن سے الگ فقہی یا غیر فقہی کتابوں کے ذریعہ بتائے اور پڑھائے جائیں۔
۳-قرآن مجید کا ہر ملک کی زبان میں حامل المتن ترجمہ کیا جائے اور جہاں جہاں ضرورت ہو تشریح وتفسیر کردی جائے، تاکہ قرآن تلاوت کرنے والا غیرعربی داں مسلمان الفاظ قرآن کے ساتھ ہی اس کے معنی ومطلب سے بھی ایک حدتک واقف ہوجائے۔
پہلی صورت کے لزوم ووجوب کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ دوسری صورت میں غیرعربی داں مسلمان قرآن کے معنی ومطلب سے محروم رہ جاتے ہیں اور قرآن سے ان کے گہرے ربط وتعلق میں کمی پیدا ہوجاتی ہے اس لیے علماء امت نے تیسری ہی صورت اختیار فرمائی۔اب اس زمانے میں تو قرآن کے حامل المتن ترجمہ کے عدم جواز کے بارے میں کسی مسلمان کو شاید کوئی شک بھی نہیں گزرتا لیکن کم سے کم ہندوستان میں جب قرآن کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی زبان میں کیا گیا تو اس وقت اس کے خلاف عوام وخواص نے سخت احتجاج کیاتھا۔ ظاہر ہے کہ ان میں سبھی غیرمخلص اور شرپسند نہ ہوں گے، بلکہ بہت سے لوگوں نے اخلاص کے ساتھ اور متوقع خطرات کے پیش نظر ہی اس کی مخالفت کی ہوگی۔ لیکن اس مخالفت کے پیچھے نہ عقلی دلیل تھی نہ نقلی اور متوقع خطرات بھی قابلِ اعتنانہ تھے۔ اس لیے وہ ترجمہ مقبول ہوا اور آئندہ بہت سے تراجم کاسنگ میل ثابت ہوا۔ دوسرا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ دنیا کے غیرمسلموں میں کس طرح قرآن سے دل چسپی پیدا کی جائے جو دین اسلام کا سب سے اعلیٰ ماخذ ہے۔
مسلمانوں کے تعلق سے اوپر جو تین صورتیں پیش کی گئی ہیں، ان میں سے پہلی دو صورتیں یہاں اور زیادہ نامناسب ہیں۔ پہلی صورت یوں صحیح نہیں کہ جب مسلمانوں پر عربی کی تعلیم واجب قرارنہیں دی جاسکتی تو غیرمسلموں پربدرجہ اولیٰ واجب نہ ہوگی۔ دوسری صورت میں یوں فٹ نہیں کہ حصول اجروبرکت کے لیے الفاظ قرآن کی تلاوت غیرمسلموں کے لیے بے معنی ہے۔ تیسری صورت یعنی متن کے ساتھ ترجمہ قرآن کی اشاعت، البتہ قابل غور ہے۔ جہاں تک میں نے غورکیا ہے غیرمسلموں کے لیے ترجمہ کے ساتھ متن قرآن کی اشاعت ضروری نہیں معلوم ہوتی۔ یہ رائے میں نے متعدد وجوہ سے قائم کی ہے۔
۱- مروجہ حامل المتن تراجم قرآن کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جن لوگوں نے سب سے پہلے حامل المتن ترجمہ قرآن شائع کیا، ان کے سامنے اصلاً صرف وہ مسلمان تھے جو تلاوت قرآن تو کرتے تھے لیکن یہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ اس کتاب میں کیا کہا گیا ہے۔ وہ قرآن کے معنی ومطلب سے ناآشنا ہوتے تھے اور صرف حصول اجر وبرکت کے لیے تلاوت کرتے تھے۔ انھیں اس کتاب الٰہی سے آشنا کرنے کے لیے آیات قرآنی کے بین السطور میں ترجمے شائع کیے گئے تاکہ ایک طرف وہ تلاوت قرآن کے عظیم اجروبرکت سے مستفید ہوں اور دوسری طرف قرآن کے معانی ومطالب سے بھی ایک حدتک واقف ہوں اور ناآشنائے محض نہ رہ جائیں۔ بین السطور ترجمہ کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ عربی زبان سیکھنے والے طلبہ الفاظ قرآن کے لفظی ترجمے پڑھ کر عربی کی استعداد بھی بڑھالیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین رحمہما اللہ کے تقریباً لفظی ترجمے پڑھ کر کچھ اسی طرح کا تاثر ذہن میں قائم ہوتا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انھوں نے اصلاً غیرمسلموں کو سامنے رکھ کر حامل المتن ترجمے شائع نہیں کیے تھے۔ کیوں کہ جو لوگ الفاظ قرآن پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ان کے لیے متن قرآن کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ اگر کسی درجے میں بھی ایسے لوگ سامنے ہوتے جو قرآن پڑھنا نہیں جانتے توبین السطور ترجمے کی کوئی تک سمجھ میں نہیں آتی۔ اس لیے غیرمسلموں کو قرآن سے آشنا کرنے کے لیے اس صورت پراصرار کرنا جو قرآن خواں مسلمانوں کے لیے اختیار کی گئی تھی، مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
۲- جس طرح حامل المتن تراجم قرآن کے عدم جواز پرکوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔ اسی طرح بلامتن ترجمہ قرآن کی اشاعت کو ناجائز کہنے کے لیے کوئی دلیل شرعی موجو د نہیں ہے۔
۳- ترجمےکے ساتھ پورامتن قرآن غیرمسلموں کے ہاتھوں میں دینا احترام قرآن کے پہلو سے بھی نامناسب ہے۔ بلکہ ایک حدیث سے مستنبط ہوتا ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ قرآن فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ بات بہتوں کو عجیب معلوم ہو، اس لیے میں وہ حدیث نقل کرتاہوں 
عَنْ ابْنِ عُمَرَاَنَّ النَّبِیَ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَھیٰ اَنْ یُّسَافِرَ بِالْقُرْآنِ اِلٰی اَرْضِ العَدُوِّ مَخَافَۃَ اَنْ یَّنَالَہُ العَدُ وَّ (متفق علیہ )
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ قرآن ساتھ لے کر دشمن کے ملک میں سفر کیاجائے، اس خوف سےکہ کہیں دشمن اسے چھین نہ لے۔‘‘
محدثین نے تصریح کی ہے کہ اس ممانعت کی علت قرآن کی بے حرمتی کا خوف ہے۔ اگریہ خوف نہ ہوتو دشمن ملک میں بھی قرآن ساتھ لے کر سفر کیاجاسکتا ہے۔ اسی حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہواہے کہ غیر مسلموں کے ہاتھ قرآن نہ فروخت کیاجائے۔ چناں چہ اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں 
وَاسْتَدَلَّ بِہٖ عَلٰی مَنْعِ بَیْعِ الْمُصْحَفِ مِنَ الْکَافِرِ لِوَجُوْدِ الْمَعْنٰی الْمَذْکُوْرِ فِیْہِ وَھُوَالتَّمکن مِنَ الْاِسْتِھَانَۃِ بِہٖ وَلَا خِلَافَ فِی تَحْرِیْمِ ذَالِکَ وَاِنَّمَا وَقَعَ الْاِخْتِلَافُ ھَلْ یَصحَّ لَوَ وَقَعَ وَیُوْمَر بِازَالَۃ ِمِلْکِہٖ عَنْہٗ اَمْ لَا؟ (ج۶،ص۸۲)
’’اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ کافر سے قرآن کی فروخت ممنوع ہے کیوں کہ یہاں بھی مذکورہ علت موجود ہے۔ اس صورت میں بھی کافر کو بے حرمتی کرنے پرقدرت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس بیع وفروخت کے حرام ہونے میں اختلاف نہیں ہے۔ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ اگر ایسا ہوتوبیع واقع ہوگئی یا نہیں اور قرآن سے کافر کی ملکیت دور کرنے کا حکم دیاجائے گا یا نہیں ؟‘‘
اس فقہی حکم کی موجودگی میں غیرمسلموں کے لیے ترجمہ کے ساتھ پورا متن قرآن شائع کرنا کس طرح مناسب قراردیاجائے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ غیرمسلموں کو قرآن دیاجاسکتا ہے اور دلیل میں اس فرمان نبویؐ کو پیش کرتے ہیں جو آپ نے ہرقل کو بھیجا تھا، کیوں کہ اس میں قرآن کی آیت بھی درج تھی۔ شاید ایسے لوگوں کی نگاہوں سے مذکورہ بالا حدیث اوجھل ہوجاتی ہے اور وہ اس فرق کو بھی محسوس نہیں کرتے جو پورے قرآن اور کسی خط میں دو ایک آیتوں کے حوالہ میں ہے۔ فقہائے امت نے اس فرق کو محسوس کیا ہے۔
علامہ نووی لکھتے ہیں 
وَاتَّفَقَ العُلَمَاءُ عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُاَنْ یَکْتُبَ اِلَیْھِمْ کِتَابٌ فِیْہِ آیۃ اَوْ آیات وَ الْحُجَّۃُ فِیْہِ کِتَابُ النَّبِیِّ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی ھَرِقَل (شرح مسلم )
’’اور علماکا اس پر اتفاق ہے کہ غیرمسلموں کو ایسا خط لکھنا جائز ہے جس میں قرآن کی ایک یا چند آیتیں درج ہوں اوراس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے جو آپؐ نے ہرقل کو بھیجا تھا۔‘‘
اس کے علاوہ عام طورپر کسی غیرمسلم کو قرآن دینے اور سفارتی سطح پرکسی غیرمسلم حکومت کو قرآن یا قرآن کی بعض آیتیں بھیجنے میں بڑا فرق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جس فرمان سے استدلال کیاجاتا ہے اس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ہرقل نے اس کی بڑی عزت کی تھی اور بڑے اعزاز کے ساتھ حضورؐ کا وہ فرمان بہت دنوں تک اس کے خزانے میں محفوظ رہا۔
اس بحث کے بعد اب میں ان لوگوں کےخیالات کا بھی جائزہ لینا چاہتاہوں جو غیرمسلموں کے لیے بھی صرف ترجمے کی اشاعت کوناجائز کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ اندیشہ ہے کہ اگر بلامتن ترجمے رائج ہوگئے تو دیگر کتب سماوی کی طرح قرآن کامتن بھی نعوذ باللہ دنیا سے غائب ہوجائے گا اور صرف تراجم باقی رہ جائیں گے۔ قرآن کے بارے میں یہ اندیشہ میرے نزدیک وہم سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس اندیشے میں پہلی بات تویہ نظرانداز ہوگئی ہے کہ صرف انگریزی یا صرف ہندی کے ترجمے اصلاً غیرمسلموں تک قرآن کی تعلیمات پہنچانے کے لیے شائع کیے جارہے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے درمیان صرف تراجم کے رائج ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ دوسری بات جو پہلی بات سے زیادہ عجیب ہے وہ یہ کہ اس معاملے میں قرآن اور دیگر کتب سماوی کو ایک قرار دے دیاگیا ہے۔ حالاں کہ تمام انسان مل کر بھی قرآن کو دنیا سے غائب کرنا چاہیں تو ہرگز قادر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ قرآن کو قیامت تک دنیا میں باقی رکھنے، بلکہ امت مسلمہ میں سے ایک ایسے گروہ کو باقی رکھنے کی ذمہ داری لی ہے جو خود قرآن پرعمل کرتا رہے گا، دنیا کو اس کی طرف دعوت دیتارہے گا اور تمام معنوی تحریفات کو باطل کرتارہے گا۔
پریس کی اس ترقی کے زمانے میں قرآن دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں شائع ہورہاہے اور ہوتا رہے گا۔ لاکھوں سینوں میں قرآن محفوظ رہے گا۔ اس کے علاوہ دیگر سائنسی ذرائع اور وسائل ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو متن قرآن کی حفاظت کے لیے بھی استعمال کیے جارہے ہیں اور کیے جائیں گے۔ یہاں اس بات کی طرف صرف اشارہ مقصود ہے۔ حفاظت قرآن کے تمام ذرائع ووسائل کی تفصیل مقصود نہیں ہے۔
دوسری دلیل جودی جاتی ہے۔ وہ یہ اندیشہ ہے کہ اگرمتن سامنے نہ ہوتو تحریف معنوی کی بڑی گنجائش پیدا ہوجائے گی۔
یہ عجیب اندیشہ ہے جو فہم سے بالا ترہے۔ سوا ل یہ ہے کہ کیا متن کی موجودگی میں تحریف معنوی نہیں کی جاسکتی اور کیا متن کے ساتھ ساتھ تحریف کی مثالیں آج بھی موجود نہیں ہیں ؟ اس کے علاوہ متن کی موجودگی میں بھی غلط ترجموں کی گرفت تووہی لوگ کرسکتے ہیں جو عربی سےواقف ہوں اور اس زبان سے بھی جس میں ترجمہ کیاگیا ہے اور یہاں ترجمہ بلا متن کی اشاعت ان لوگوں کے لیے ہے جو عربی سے تو کیا واقف ہوں گے قرآن پڑھ بھی نہیں سکتے۔ ایسے لوگوں کے لیے متن کی موجودگی،تحریف معنوی سے رکاوٹ کس طرح بن جائے گی؟ اس سے بچنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ متن بھی لازماً شائع کیاجائے بلکہ یہ ہے کہ خدا کا خوف رکھنے والے لوگ پوری احتیاط اور جانچ پڑتال کے بعد تراجم شائع کریں۔
ایک اندیشہ یہ ہے کہ صرف ترجمہ کی اشاعت سے الفاظ قرآن سے بے توجہی پیداہوگی اوراس کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ یہ اندیشہ بھی صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک غیرمسلموں کا تعلق ہے امید یہ ہے کہ وہ ترجمہ پڑھ کر اصل قرآن کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کی اہمیت ان کے دلوں میں قائم ہوگی۔ آج ان کے دل اس کی اہمیت سے اس لیے خالی ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ قرآن میں کیا ہے جب انھیں معلوم ہوگا کہ اس کتاب میں ایسے حقائق بھرےہوئے ہیں جن کی انسان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے تو فطری طورپر وہ قرآن کی عظمت واہمیت کے قائل ہوجائیں گے۔ باقی رہے وہ مسلمان جو قرآن پڑھنا نہیں جانتے تو انھیں بھی ترجمہ پڑھ کر قرآن کی طرف توجہ ہوگی اور اس کے الفاظ سیکھنے اورپڑھنے کا شوق پیداہوگا۔ غرض یہ ہے کہ محض کسی ایسی کتاب سے جس میں قرآن کا متن بھی ہواور ترجمہ بھی، الفاظ قرآن کی اہمیت پیدا نہیں ہوتی۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان اندیشوں میں سے کوئی اندیشہ ایسا نہیں ہے جو ترجمہ بلا متن کی عدم اشاعت کے لیے دلیل بن سکے۔ یہ وجوہ ہیں جن کی بناپر میرے نزدیک خصوصیت کے ساتھ غیرمسلموں کی ضرورت وطلب کے پیش نظر ترجمہ بلامتن شائع کرنے کی پوری گنجائش موجود ہے۔
(مارچ ۱۹۶۲ء،ج ۲۸،ش ۳)