تشخص کا مسئلہ

ہمارے ملک اور دیگر ممالک میں بھی قبول ِ اسلام کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں ۔ کوئی شخص اسلام قبول کرتاہے تو اپنا سابقہ تشخص بدل کر اسلامی نام، اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع اختیار کرلیتا ہے۔ بہ راہ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں ۔ ایسا کرنا ضروری ہے یا یہ ایک غیر ضروری اور ناپسندیدہ عمل ہے؟ ایک مولانا صاحب ہیں جو اس کی بہت شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عمل نہ صرف غیر ضروری، بل کہ نقصان کی بات ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کا تشخص نہ بدلیں تو وہ اپنی سوسائٹی سے کٹتے نہیں اور بہ آسانی اس میں اشاعت ِ اسلام کا کاانجام دے سکتے ہیں ۔ دلیل میں وہ سورۂ مومن میں مذکور ’مرد مومن‘ کا کردار پیش کرتے ہیں ۔ وہ مرد مومن حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا تھا، مگر حضرت موسیٰ نے اس سے نام اور ظاہری تشخص بدلنے پر اصرار نہیں کیا اور وہ اپنے سابقہ نام اور سابقہ وضع قطع کے ساتھ دربار ِ فرعون کا ممبر بنا رہا۔ اس بنا پر وہ ایک خاص موقع پر دربار فرعون میں حضرت موسی کی حمایت میں ایک اہم رول ادا کرنے کے قابل ہوسکا۔ ان خیالات کو پڑھ کر میں ایک عجیب ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔ دعوتی کام کے سلسلے میں آج تک جو کوششیں ہوئی ہیں ، کیا وہ سب غلط تھیں ؟ غیر مسلموں میں جو کام ہو رہا ہے، کیا وہ بھی غلط انداز میں ہو رہا ہے؟ بہ راہ کرم مفصل اور اطمینان بخش جواب سے نوازیں ۔
جواب

اس مسئلے پر درج ذیل نکات کی روشنی میں غور کرنا چاہیے:
۱- قبول اسلام کا تعلق اصلاً دل کی تبدیلی سے ہے۔ چند متعین عقائد پر آدمی کا دل مطمئن ہوجائے، وہ انھیں اپنا لے اور ان کو سچ جانے تو وہ مسلمان ہے۔ اس سلسلے میں دو الفاظ مستعمل ہیں ۔ ایمان اور اسلام۔ ایمان نام ہے ان عقائد کو سچ جاننے اور ماننے کا اور اسلام کہتے ہیں ان کا اقرار کرنے اور اللہ کے فرض کردہ احکام پر عمل کرنے کا۔ مشہور حدیث ِ جبریل میں ہے: ’’ایک مرتبہ مجلس ِ نبوی میں حضرت جبریل علیہ السلام ایک اجنبی شخص کے بھیس میں تشریف لائے اور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا: ایمان کیا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ایمان یہ ہے کہ تم مانو اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو، روز آخرت کو اور تقدیر کے اچھے برے ہونے کو۔ انھوں نے پھر سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو‘‘ (صحیح مسلم: ۹) لیکن قرآن و حدیث میں دونوں الفاظ کا استعمال ہم معنی بھی ہوا ہے۔ اسی لیے عقائد کی کتابوں میں اسلام کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْجَنَانِ وَ عَمَلٌ بِالأَرْکَانِ ’’زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور ارکان پر عمل۔‘‘
۲- اندرونی تبدیلی بیرونی تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔ آدمی کا دل جس چیز کی گواہی دیتا ہو اور جسے سچ جانتا اور مانتا ہو، ضروری ہے کہ زبان بھی اس کا اقرار کرے اور ا س کے ظاہر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہو۔ دل کا حال اللہ جانتا ہے، لیکن دنیا میں فیصلہ انسان کے ظاہری حال کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست میں یہ معاملہ بالکل ظاہر ہے کہ اس میں اگر کوئی شخص اسلامی احکام پر عمل نہیں کرے گا تو اس کا احتساب کیا جائے گا اور اگر جن کاموں سے روکا گیا ہے، ان کا ارتکاب کرے گا تو اس کی سرزنش کی جائے گی اور سزا دی جائے گی۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ کے عہد میں لوگوں کی گرفت وحی کے ذریعے کی جاتی تھی۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔ اب ہم تمھاری گرفت تمھارے ظاہری اعمال کو دیکھ کر کریں گے۔ جو شخص بہ ظاہر کوئی اچھا کام کرے گا، اس سے ہم کچھ تعرض نہ کریں گے اور اسے اپنے سے قریب رکھیں گے، اس کے دل کا حال جاننے کی کوشش نہیں کریں گے، اس کے باطن کے معاملے میں اللہ اس کا محاسبہ کرے گا اور جو شخص ظاہر میں کوئی برا کام انجام دے گا، اسے ہم چین سے بیٹھنے نہ دیں گے اور نہ اسے سچا مانیں گے، خواہ وہ دعویٰ کرے کہ اس کا دل صاف اور اس کا باطن اچھا ہے۔ (صحیح بخاری: ۲۶۴۱) اسلامی ریاست نہ ہو تو بھی ضروری ہے کہ آدمی کا ظاہر اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دے، تاکہ دوسرے لوگ اس کے ساتھ مسلمان ہونے کی حیثیت سے معاملہ کریں ، احکام اسلام پر عمل کرنے میں اس سے کوتاہی ہو تو اسے وعظ و نصیحت اور تفہیم و تلقین کریں اور اس سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ قرآن نے اہل ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ نہ صرف خود اچھے کام کرتے ہیں ، بل کہ دوسرے اہل ایمان کو بھی حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔ (العصر:۳)
۳- نام، وضع اور لباس وغیرہ انسان کی شخصیت کی پہچان کے مختلف ذرائع ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو عام ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگ انھیں اختیار کرتے ہیں ، لیکن کچھ اپنی مذہبی شناخت رکھتے ہیں ۔ ایسے نام اختیار کرنا یا ایسے لباس پہننا جو کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ مخصوص ہوں ، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ۔ شریعت میں اس سے روکا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا۔ (ترمذی، ابواب الاستئذان والآداب: ۲۶۹۵)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو غیروں سے مشابہت اختیار کرے۔‘‘
امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن یہ مضمون دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔ (ابو داؤد، کتاب اللباس: ۴۰۳۱، مسند احمد: ۲/۵۰)
’’جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انھی میں سے ہے۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں ملاّ علی قاریؒ نے لکھا ہے: ’’یعنی جس شخص نے مثلاً کفار سے مشابہت اختیار کرنے کی غرض سے انھی کی طرح کا لباس اختیار کیا، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انھی کی طرح گنہ گار ہوگا۔‘‘ (مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ، بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد، طبع سہارن پور: ۵/۱۴)
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے، جو عورت کی طرح لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردانہ لباس پہنتی ہے۔
(بخاری، کتاب اللباس: ۵۸۸۵، ابو داؤد، کتاب اللباس: ۴۰۹۸)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں : ’’اس کا اطلاق ان جگہوں پر ہوگا جہاں مردوں اور عورتوں کے لباس میں فرق ہوتا ہے۔ لباس کی ہیئت کے معاملے میں ہر علاقے کے لوگوں کی عادتیں مختلف ہوتی ہیں ۔ بعض علاقوں کے مردوں اور عورتوں کے لباس میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ سب ایک طرح کا لباس پہنتے ہیں ۔ ان پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔‘‘
(فتح الباری بشرح صحیح البخاری، طبع بیروت: ۱۰/۳۳۲)
جب اسلامی شریعت اس قدر حساس ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنے اور ایک دوسرے کے مخصوص لباس استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی تو وہ دوسرے اہل مذاہب کی مشابہت اختیارکرنے اور ان کے جیسا لباس زیب تن کرنے کی کیوں اجازت دے سکتی ہے؟
۴- اسلام کا یہ اصولی حکم ہے جو عام حالات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا اطلاق جس طرح خاندانی اور موروثی مسلمانوں پر ہوگا، اسی طرح نئے اسلام قبول کرنے والوں پر بھی ہوگا کہ اگر ان کے نام، وضع قطع اورلباس ایسے ہوں کہ وہ ان کے سابقہ مذاہب کی پہچان ہوں تو انھیں بالکلیہ ترک کردیں یا ان میں ایسی تبدیلی کرلیں کہ ان کی قدیم مذہبی شناخت ختم ہوجائے۔ لیکن استثنائی حالات میں دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی رخصت دی گئی ہے۔
کسی مسلمان کے لیے عام حالات میں کلمۂ کفر زبان پر لانا جائز نہیں ۔ جن لوگوں نے ایمان کو کھیل بنا رکھا ہو کہ کبھی ایمان کا اظہار کرتے ہوں اور کبھی کفر کا، ان کی سرزنش کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ ٰ امَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ٰ امَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَلَھُمْ وَلاَ لِیَھْدِیَھُمْ سَبِیْلاًoط
(النساء: ۱۳۷)
’’جو لوگ ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی ان کو راہِ راست دکھائے گا۔‘‘
لیکن اگر کسی شخص کی جان پر بن آئی ہو، اسے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہو اور اذیتیں دے کر کلمۂ کفر کو زبان سے ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہو تو وہ اپنی جان بچانے اور ظلم سے نجات پانے کے لیے ایسا کرسکتا ہے:
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلّاَ مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَ لٰـکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo (النحل: ۱۰۶)
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا، اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
اسی طرح اگر کسی شخص کے اسلام قبول کرلینے کے نتیجے میں اسے قوی اندیشہ ہو کہ اس کے خاندان والے اسے ظلم و تشدد کا نشانہ بنائیں گے اور بہ جبر اس کو اس کے سابقہ مذہب میں واپس لانے کی کوشش کریں گے تو اسے اجازت ہوگی کہ وہ اپنے قبول ِ اسلام کو اس وقت تک مخفی رکھے، جب تک کہ اپنے اہل ِ خاندان یا دوسرے لوگوں کے ظلم و جبر اور تشد ّد سے اپنی حفاظت کا کوئی مناسب انتظام نہ کرلے۔ یہی بات اس صورت میں بھی کہی جائے گی جب اسلام قبول کرنے والے کو قوی امید ہو کہ وہ اپنے قبول اسلام کو تھوڑی مدت مخفی رکھ کر اپنے متعلقین اور دوسرے اہل ِ خاندان کی ہدایت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سیرت ِ نبوی میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کے اسلام قبول کرنے کے بعد کچھ عرصہ اسے پوشیدہ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ کے قبول اسلام کے واقعے میں صراحت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’ابھی اپنے معاملے کو پوشیدہ رکھو اور اپنے وطن لوٹ جاؤ، جب میرے ظہور کی خبر پہنچے تب آجانا۔‘‘ (مستدرک حاکم، طبع حیدر آباد: ۳/۳۳۹)
شاہِ حبشہ نجاشی اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لے آیا تھا، لیکن اس نے اپنے معاملے کو پوشیدہ رکھا، یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپؐ نے اس کے بارے میں توصیفی کلمات ادا فرمائے، استغفار کیا اور غائبانہ نماز ِ جنازہ ادا کی۔
(بخاری: ۱۲۴۵، ۱۳۱۸، ۱۳۲۷، ۳۸۸۹، ۳۸۸۱ اور دیگر کتب ِ حدیث)
۵- قرآن کریم کی سورۂ مومن میں فرعون ِمصر کے دربار سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا جو تذکرہ آیا ہے اس کا تعلق بھی استثنائی اور غیر معمولی حالات سے ہے۔ فرعون کا ظلم و ستم معروف تھا، وہ عوام پر سخت مظالم ڈھاتا اور انھیں شدید تکلیفیں دیتا تھا۔ (البقرۃ: ۱۴۹ ابراہیم: ۶، القصص: ۴) جادوگروں کے قبول ِ اسلام پر اس نے دھمکی دی تھی کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا۔ (الاعراف: ۱۲۴، طٰہٰ: ۲۰، الشعراء: ۲۶) اس لیے دربارِ فرعون سے وابستہ اس شخص نے قبول اسلام کے بعد اپنے معاملے کو کچھ عرصہ مخفی رکھا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازشیں جب اس کے سامنے کی جانے لگیں تو اس کا پیمانۂ صبر چھلک گیا اور ا س نے اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے قبول ِ اسلام کو ظاہر کردیا۔ قرآن اس شخص کے ایمان چھپانے کی صراحت کرتا ہے:
وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ صلیق مِّنْ ٰ الِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗٓ (المومن: ۲۸)
’’(اس موقع پر) آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا۔۔۔‘‘
قرآن کا یہ بیان دلالت کرتا ہے کہ اس واقعے کا تعلق عام حالات سے نہیں ہے۔ اپنے افکار و خیالات کو آدمی اسی صورت میں چھپاتا ہے، جب ان کے اظہار پر اسے کسی طرح کا ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ دربار فرعون کے مرد ِ مومن کا بھی یہی کیس تھا۔
۶- یہ کہنا کہ اسلام قبول کرنے والوں کا تشخص بدلنے سے ان کا دعوتی رول بالکل ختم ہوجاتا ہے، اگر وہ اپنے سابقہ تشخص کو باقی رکھیں تو اپنی سوسائٹی میں زیادہ آسانی سے اشاعت اسلام کا کام انجام دے سکتے ہیں ، محض خام خیالی ہے۔ اس کے برخلاف سابقہ تشخص برقرار رہنے سے اس بات کا اندیشہ قائم رہتا ہے کہ آدمی سابقہ غیر اسلامی ماحول اور سوسائٹی کا جز بنا رہے یا دوسروں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں کام یاب ہونے کے بہ جائے سابقہ مذہب کی طرف دوبارہ اس کا میلان ہوجائے۔ دوسری طرف مختلف ممالک اور اپنے ملک میں بھی ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ اسلام قبول کرنے اور اپنا ظاہری تشخص بدل لینے کے باوجود آدمی اپنی سوسائٹی اور خاندان سے کٹا نہیں ، بل کہ ان میں سے بہت سوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا۔