مئی ۱۹۸۴ء کی بات ہے کہ آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد دکن کے اردو پروگرام ’سب رنگ‘ کے لیے ’کتابوں کی باتیں ‘ کے تحت مجھے کسی کتاب پر ’ٹاک‘ لکھنے کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے اس تعارفی تبصرے کے لیے آپ کی کتاب ’اسلامی تصوف‘ کا انتخاب کیا۔ یہ ٹاک ۲۵؍مئی ۱۹۸۴ء کو نشر ہوئی تھی، لیکن ہمت نہ ہوتی تھی کہ آپ کی خدمت میں ارسال بھی کردوں کہ میں کیا اور میری رائے کیا۔ لیکن اب بھیجنے کی یہ جو جسارت کررہاہوں اس کا محرک ’غیراسلامی تصوف کامقدمہ‘ہے۔ کیوں کہ یہ کھٹک آپ کی کتاب ’اسلامی تصوف‘ پڑھتے ہوئے بھی محسوس کی تھی جو دیگر کتابوں خصوصاً حضرت مولانا علی ندوی کی کتاب ’تاریخ دعوت وعزیمت ‘ حصہ اول کے مطالعہ کے بعد کچھ بڑھ گئی تھی اور اب ’غیراسلامی تصوف‘ کامقدمہ پڑھ کر اس میں مزید اضافہ ہوگیا کہ سارا جھگڑا اسلامی اصطلاح ’احسان‘ کو چھوڑکر ’تصوف ‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کی وجہ سے کھڑا ہواہے۔یہی خرابی کی جڑ ہے۔ نہ اسلامی اصطلاح کو چھوڑ ا جاتا نہ غیراسلامی تصورات، نظریات، طریقوں اور رویوں کو یوں در آنے کا آسان موقع ملتا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ’اصطلاح پر جھگڑنا معقول بات نہیں ہے۔‘ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ جھگڑا تو خود اس اصطلاح ’تصوف‘ کا پیدا کردہ ہے۔ آخراسلامی اصطلاحات ’تقویٰ‘ اور ’احسان‘ کو چھوڑ کر دوسری اصطلاح استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیوں پڑی جب کہ یہ لفظ ایسا ہے کہ اس کی اصل کا صحیح سراغ آج تک نہیں لگایا جاسکا۔ میرے ناچیز خیال میں اس اصطلاح کا استعمال ہی بذات خود غیراسلامی اثرات کاغماز ہے۔ شیطان اللہ کے سیدھے راستے پربیٹھ کر ہی تودھوکا دیتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں مخصوص اصطلاحات بالعموم ایک خاص انداز کی ذہنی افتاد، فکری مزاج اور عملی رویے کی علامت ہوتی ہیں۔ انھیں معمولی سمجھ کر نظرانداز کردینا زبردست غلط فہمیوں اور نقصانات کاسبب بن سکتا ہے او ربنتا رہاہے۔ اسی لیے اس ہیچ مداں کی عرض یہ ہے کہ اس اصطلاح ’تصوف ‘ سے چھٹکارا حاصل کرلینے ہی میں عافیت ہے۔
اپنی اس نامعقولیت اورگستاخی کے باوجود یقین رکھتا ہوں کہ آپ عفوو درگزرسے کام لیتے ہوئے احسان کی روش اختیار فرمائیں گے اور مجھے تسلی بخش جواب سے نوازیں گے۔
جواب
’اسلامی تصوف‘ پرآپ کا تبصرہ اور گرامی نامہ مجھے اس وقت ملاتھا جب میں ایک حادثے میں سخت زخمی ہوگیاتھا۔ اس کا جواب میں نے املاکرادیا تھا۔ اس کے بعد پھر آپ کا پوسٹ کارڈ آیاتھا۔ میں آپ کا شکرگزارہوں ـــــــــاسلامی تصوف پرآپ کا تبصرہ تو ان شاء اللہ ’زندگی نو ‘ میں شائع ہوجائے گا۔ اس وقت رسالے کی اشاعت جس طرح ہورہی ہے اس کےلحاظ سے جون ۱۹۸۶ء کے شمارہ میں تبصرہ شائع ہوسکے گا۔
آپ نے جو لکھا ہے کہ ’اصل جھگڑا اصطلاح تصوف‘ کا ہے، میں اس سے متفق ہوں کہ ’احسان‘ کی اصطلاح کو چھوڑ کر’تصوف‘ کی اصطلاح اختیار کرنا ایک غلط کام تھا اور اس نے علم الاحسان کو بگاڑنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔ لیکن اب اس اصطلاح سے پیچھا چھڑانا عملاً ناممکن ہے۔ اسی لیے میں نے یہ بات لکھی ہے کہ ’اصطلاح ‘پر جھگڑنا معقول بات نہیں ہے۔ اب یہ اصطلاح اتنی مستولی ہے کہ اس اصطلاح کے بغیر وہ چیز لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی جوتقویٰ اوراحسان کی ہے۔ اب اصلاح حال کے لیے مناسب یہی معلوم ہوتاہے کہ تصوف کی دو قسمیں - اسلامی اور غیراسلامی کرکے اسلامی اور غیراسلامی اجزا کو الگ الگ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت حقیر یہی خدمت انجام دینے کی سعی کررہاہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور صوفیوں کے دل ودماغ سے غیر اسلامی اجزا کو نکال دے۔ آمین!
(جون ۱۹۸۶ء ج۴ ش۶)