مجھے تصوف کے موضوع سے ایک خاص لگائو ہے۔ میں نے اس موضوع پربہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آں جناب کی کتاب ’اسلامی تصوف‘ کے مطالعہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کی یہ کاوش اس دور میں منارۂ نور ثابت ہوگی۔ اس سلسلے میں کی گئی اب تک کی تمام کوششوں میں کامیاب ترین کوشش ہے۔ کیوں کہ یہ افراط وتفریط سے پاک ہے اور اس میں خالص قرآن وسنت کو معیار بنایاگیا ہے۔ اہل تصوف کے اقوال کاجائزہ بھی بالکل غیرجانب دارانہ ہے۔ مگر میں انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس میں مجاہدہ، مراقبہ، کشف والہام کو چند شرائط کےساتھ (یعنی قرآن وسنت کی حدود میں رہتے ہوئے) جائز بتایا گیا ہے۔ اس سے خانقاہی ذہن کو تقویت حاصل ہوگی۔ اسی ذہن نے مسلمانوں کو غلبۂ دین کی جدوجہد سے بازرکھا ہے۔ وقت کاغالب نظام اس ذہن خانقاہی سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے اوراس کو ایک حربے کے طورپر استعمال کرتاہے۔ حقیقی اور صحیح تصوف تو بقول مولانا مودودیؒ یہ ہے کہ آدمی اس کام کو لے کر اٹھے جس کے لیے قرآن نازل ہواہے۔ آدمی، جہاں اور جیسی ہدایات قرآن دیتا جائے اسی کے مطابق کام کرتا چلاجائے یہاں تک کہ دین پورا کاپورا اللہ کے لیے ہوجائے۔ راہ کے تمام مراحل وامتحانات میں پامردی اور استقلال کاثبوت دے۔ یہ ہے اسلامی تصوف -
میں آپ سے عرض کروں گا کہ آپ اپنی دوسری کتاب جو آپ تصوف کے دوسرے رخ پرمرتب کررہے ہیں اور جس کا مقدمہ آپ نے نومبر ۱۹۸۵ء کے شمارے میں شائع کیاہے، جلد سے جلد منظر عام پر لائیے۔
جواب
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میری کتاب’اسلامی تصوف‘ آپ کو پسند آئی اور آپ نے اس کو مفید سمجھا۔ مجاہدہ، مراقبہ اورکشف والہام کے بارے میں جوکچھ لکھاگیا ہے وہ خود آپ کے نزدیک قرآن وحدیث کی حدود کے اندر ہے۔ موجودہ تصوف اوراس پر لکھی ہوئی کتابوں کے بارے میں میراموقف یہ ہے کہ ان میں جو باتیں اچھی اور قرآن وحدیث کے مطابق ہیں ان کو بھی نمایاں کیاجائے اور جو چیزیں بری اور دوسرے مذاہب فکر سےلے لی گئی ہیں ان کو بھی نمایاں کرکے ان کی تردیدکی جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ غلط ہیں۔ ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (جنوری۱۹۸۶ء ج۴ ش۱)