ناچیز آپ کے لیے ایک اجنبی شخص ہے۔ بس میں نے آپ کی دوکتابیں پڑھی ہیں۔ پہلی کتاب ’مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے اعتراضات کاجواب‘ ہے اور دوسری کتاب ’اسلامی تصوف‘ ہے۔ یہ کتاب میں نے آپ کے ایک دیرینہ دوست کو مطالعہ کے لیے دے دی ہے۔ اب تک جتنا حصہ وہ پڑھ چکے ہیں اس کی تعریف کی ہے۔آپ کی کتاب ’اسلامی تصوف‘ پڑھنے کے بعد جو چند سوالات ذہن میں ابھرے ہیں وہ آپ کو لکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ مفصل جواب دیں گے۔
حدیث جبرئیل میں ’احسان‘ کا جو ذکر ہے اسے کیسے حاصل کیا جائے اور اس کے لیے کیا طریقہ اپنایا جائے جب کہ تصوف کی عمارت ہی اس پر کھڑی ہے۔ میں نے اب تک جماعت کی جتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ان میں تعلق باللہ پرزور دیا گیا ہے لیکن کیا عام انسان بغیر کسی اہل اللہ کی صحبت کے وہ مقام پاسکتا ہے ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی کتابوں کے مطالعہ سے دین کی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور زندگی بدل جاتی ہے لیکن قلب کی اصلاح اور توجہ الی اللہ نہیں ہوپاتی۔ یہ میرا اپنا ذاتی خیال ہے اور کچھ دوسرے لوگ بھی ایسا ہی خیال رکھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اور ادووظائف پڑھتا ہے تو ثواب یقیناً ملے گا لیکن قلب کا ذاکر ہونا میری دانست میں بغیر بزرگوں کی توجہ کے ناممکن ہے۔ اور جب تک قلب ذاکر نہ ہوگا ’احسان‘ کامقام حاصل نہیں ہوگا۔ ہاں ایک عام آدمی کو آپ کی کتاب کے مطالعہ سے معلومات حاصل ہوجائیں گی اور اس کے اخلاق بھی درست ہوسکتے ہیں، لیکن قلب کاذاکر ہونا بغیر توجہ کے ناممکن ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر استاذ کے کوئی شخص الف، ب کی کتاب لے کر بیٹھ جائے اور پڑھنا شروع کردے۔ کیا کوئی شخص بے استاد علم حاصل کرسکتا ہے! اگر پڑھ لے گا تو معنی مطلب نہیں جان سکے گا۔
میں برابر’مکتوبات امام ربانی‘ کامطالعہ کرتارہتاہوں۔ کہیں بھی میں نے ان کی تحریر میں خلاف شریعت کوئی بات نہیں پائی۔ حضرت مخدوم بہاری کی ’مکتوبات صدی‘ بھی نظر سے گزری ہے۔ یہ چیز شریعت کے مطابق ہے۔ ایک شخص کسی بزرگ کی صحبت میں بیٹھ کر چند ساعت میں وہ مقام حاصل کرلیتا ہے جو لاکھ اور ادووظائف پڑھنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔
کیا ایک شخص کسی سلسلہ میں بیعت بھی ہو اور آپ کی جماعت سے گہری ہمدردی بھی رکھتا ہواور آپ کے طریقہ کار سے موافقت بھی رکھتا ہو، رکن ہوسکتا ہے؟ جب کہ وہ رکن بننے کی تمام شرائط کو پورا کرے؟
جواب
تصوف کے سلسلے میں جو باتیں آپ نے دریافت کی ہیں وہ فی الواقع بہت مفصل جواب کی طالب ہیں۔ تصوف کی ابتدا پھر رفتہ رفتہ اس میں تغیرات، مقصد زندگی کی تعیین وتشریح، اپنے بندوں سے اللہ تعالیٰ کے مطالبات، سنت اور بدعت کے مفہوم کی وسعت، صحیح وغلط کو جانچنے کاحقیقی معیار۔ ان سب چیزوں پرجب تک گفتگو نہ کی جائے،کوئی واضح بات سامنے نہیں آسکتی۔افسوس ہے کہ ایک خط میں اتنی تفصیل جو ایک طویل مقالہ کی متقاضی ہے، نہیں کی جاسکتی۔ آپ کے خط سے جو باتیں جواب طلب معلوم ہوئیں ان کے نمبر وار مختصر جوابات حاضر کررہاہوں۔
(۱) ایک بات تو آپ نے یہ لکھی ہے کہ حدیث جبرئیل میں جس احسان کا ذکر ہے اس کو کیسے حاصل کیاجائے؟ طریقہ کیاہو؟ جب کہ تصوف کی عمارت ہی اس پر کھڑی ہے۔
یہ حقیر عرض کرتا ہے کہ حدیث شریف میں جس ’احسان‘ کا ذکر ہےاس کو اسی طرح حاصل کیاجائے جس طرح نبی اکرمﷺ نے تعلیم دی ہے۔ وہ’احسان‘ اسی طرح اور اسی طریقہ سے حاصل کیاجاسکتا ہے جو حضورؐ نے سکھایا ہے۔ انبیا کرام علیہم السلام کا ایک اہم کام نفوس کاتزکیہ کرنا اور تعلق باللہ کو زندہ اورمستحکم کرنا تھا۔ اس لیے اس سلسلے کی کوئی چیز اللہ کی کتاب اوررسول اللہ کی سنت نے چھوڑ نہیں دی ہے۔ ان دونوں صحیح ترین ماخذوں میں سب کچھ موجودہے۔ کتاب وسنت ہی کے بتائے ہوئے طریقے سے صحابہ کرام اور تابعین عظام نے ’احسان ‘ کا مقام حاصل کیا تھا۔
(۲) ’اہل اللہ ‘ اسلام میں کوئی خاص طبقہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام لوگ جو اللہ ورسول کے مطیع وفرماں بردار ہوں، ’اہل اللہ ‘ ہیں۔ صالحین کی صحبت اختیار کرنا یقیناً ضروری ہے۔
(۲) آپ نے قلب کے ذاکر ہونے کی بات لکھی ہے۔ اس کا ایک مفہوم تویہ ہے کہ مسلمان ہروقت دوباتوں کا خیال رکھے۔ ایک یہ کہ اس سے کوئی فرض وواجب اور کوئی ایسا کام چھوٹنے نہ پائے جس کا شریعت نے مطالبہ کیا ہےاور دوسری بات یہ کہ اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجس سے شریعت نے روک دیاہے۔ اور اگر نفس اور شیطان کے اغوا سے کوئی ناجائز کام ہوجائے تو فوراً خدا کی طرف پلٹے اور توبہ نصوح کرے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہماری زبان اللہ اللہ کہتی ہے اسی طرح ہمارا دل بھی اللہ اللہ کہنے لگے۔ اگر آپ نے اسی مفہوم میں قلب کےذاکر ہونے کی بات لکھی ہے تو میں اپنے علم کی حدتک یہ عرض کرتاہوں کہ کتاب وسنت میں کہیں اس کی تعلیم نہیں دی گئی ہے کہ دل سے اللہ اللہ کی آواز نکلنے لگے اور نہ ہمیں اس کا مکلف قراردیاگیاہے۔ اگر ہمارا مالک اللہ رب العزت ہم سے یہ چاہتا کہ ہمارا دل بھی اللہ اللہ کہنے لگے تو وہ اس کی ترغیب دیتا اور اللہ کے رسول اس کا طریقہ ضرور بتاتے۔ استاذ کی ضرورت مسلم ہے لیکن پہلے تو یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس چیز کا حاصل کرنا مطلوب ہے۔ جس چیز کا ہم سے مطالبہ نہ ہو اس کے لیے ہم استاذ کیوں تلاش کریں ؟
(۴) مکتوبات امام ربانی اور مکتوبات صدی کا اس حقیر نے بھی بغور مطالعہ کیا ہےاور ان میں خلاف شریعت باتیں پائی ہیں۔ مثال کے طورپر مکتوبات امام ربانی میں ذکر لسانی کو بدعت قراردیاہے۔ حالاں کہ قرآن کی آیتیں اور حدیثیں ذکر لسانی کی تعلیم سے بھری ہوئی ہیں اور صرف ذکر قلبی کی تعلیم نہ قرآن میں ہے اور نہ احادیث میں۔ یہاں تک کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ زبان ہلائے بغیر صرف ذکر قلبی کی تعلیم احادیث میں نہیں ہے۔ اسی طرح مکتوبات صدی میں مثال کے طورپر جہنم سے نجات اور جنت حاصل کرنے کے لیے عمل کرنے کی تنقیص وتحقیر کی گئی ہے۔ حالاں کہ قرآن کریم میں جنت حاصل کرنے کے لیے عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
(۵) آپ نے لکھا ہے
’’ایک شخص کسی بزرگ کی صحبت میں بیٹھ کر چند ساعت میں وہ مقام حاصل کرلیتا ہے جو لاکھ اور ادووظائف پڑھنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔‘‘
پہلی بات یہ کہ ’مقام ‘ کی توضیح آپ نے نہیں کی۔ وہ کون سامقام ہے جو وہ حاصل کرلیتا ہے؟ دوسری بات یہ کہ کیا اس مقام کو حاصل کرنے کی کوئی ترغیب کتاب وسنت میں موجود ہے؟ تیسری بات یہ کہ قرآن کریم کی آیتیں سن کر بھی بہت سے کافر مسلمان ہوگئے ہیں اور بہت سے فاسق متقی مسلمان بن گئے ہیں۔ برادر! اصل چیز خود انسان کے اندر کا ’جوہر قابل‘ ہے۔ یہ موجود ہوتو بزرگوں کی صحبت بھی مفید ہوتی ہے اور دوسرے ذرائع بھی مفید ہوتے ہیں۔ اور کسی کے اندر جوہر قابل ہی موجود نہ ہوتو کوئی چیز مفید نہیں ہوتی۔
(۶) اس حقیر نے خود خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں حضرت مولانا محی الدین قادری مجیبی کے ہاتھ پربیعت کی ہے اور جماعت اسلامی ہند کارکن بھی ہے۔ (جنوری ۱۹۸۲ء ج۶۹ ش۱)