جواب
آپ کو میرے کسی ایک فقرے سے جو شبہات لاحق ہوگئے ہیں ،وہ کبھی پیدا نہ ہوتے اگر اس مسئلے کے متعلق میرے دوسرے واضح بیانات آپ کی نگاہ میں ہوتے۔بہرحال اب میں واضح الفاظ میں آپ کے سوالات کا مختصر جواب عرض کیے دیتا ہوں ۔
تصوّف
تصوّف کسی ایک چیز کا نام نہیں ہے۔بلکہ بہت سی مختلف چیزیں اس نام سے موسوم ہوگئی ہیں ۔ جس تصوّف کی ہم تصدیق کرتے ہیں وہ اور چیز ہے۔ جس تصوّف کی ہم تردید کرتے ہیں وہ ایک دوسری چیز۔ اور جس تصوّف کی ہم اصلاح چاہتے ہیں وہ ایک تیسری چیز۔
ایک تصوّف وہ ہے جو اسلام کے ابتدائی دور کے صوفیہ میں پایا جاتا تھا۔مثلاً فُضیل بن عیاضؒ، ابراہیم بن ادہمؒ، معروف کرخی ؒ وغیرہم ۔ اس کا کوئی الگ فلسفہ نہ تھا،اس کا کوئی الگ طریقہ نہ تھا۔ وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب وسنت سے ما ٔخوذ تھے۔ اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اسلام کا مقصود ہے،یعنی اخلاص ﷲ اور توجہ الی اﷲ: وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗئَ ({ FR 1650 }) (البینۃ:۵)۔ اس تصوّف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں ۔
دوسرا تصوّف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواقی اور زردشتی اور ویدانتی فلسفوں کی آمیزش ہوگئی ہے۔ جس میں عیسائی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہوگئے ہیں ۔جس میں مشرکانہ تخیلات واعمال تک خلط ملط ہوگئے ہیں ۔ جس میں شریعت اور طریقت اورمعرفت الگ الگ چیزیں —ایک دوسرے سے کم وبیش بے تعلق، بلکہ بسا اوقات باہم متضاد — بن گئی ہیں ۔جس میں انسان کو خلیفۃ اللّٰہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کے بجاے اس سے بالکل مختلف،دوسرے ہی کاموں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس تصوّف کی ہم تردید کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک اس کو مٹانا خدا کے دین کو قائم کرنے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جاہلیت جدیدہ کو مٹانا۔
ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوّف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوّف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوّف کی ملی جلی پائی جاتی ہیں ۔ اس تصوّف کے طریقوں کو متعد د ایسے بزرگوں نے مرتب کیا ہے جو صاحب علم تھے، نیک نیت تھے،مگر اپنے دور کی خصوصیات اور پچھلے ادوار کے اثرات سے بالکل محفوظ بھی نہ تھے۔انھوں نے اسلام کے اصلی تصوّف کو سمجھنے اور اُس کے طریقوں کو جاہلی تصوّف کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی۔لیکن اس کے باوجود اُن کے نظریات میں کچھ نہ کچھ اثر جاہلی فلسفۂ تصوّف کے،اور ان کے اعمال واشغال میں کچھ نہ کچھ اثرات باہر سے لیے ہوئے اعمال واشغال کے باقی رہ گئے، جن کے بارے میں ان کو یہ اشتباہ پیش آیا کہ یہ چیزیں کتاب وسنت کی تعلیم سے متصادم نہیں ہیں ، یا کم از کم تأویل سے انھیں غیر متصادم سمجھا جاسکتا ہے۔ علاوہ بریں اس تصوّف کے مقاصد اور نتائج بھی اسلام کے مقصد اور اس کے مطلوبہ نتائج سے کم وبیش مختلف ہیں ۔ نہ اس کا مقصد واضح طور پر انسان کو فرائض خلافت کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور وہ چیز بنانا ہے جسے قرآن نے لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ({ FR 1651 })(البقرہ:۱۴۳) کے الفاظ میں بیان کیا ہے، اور نہ اس کا نتیجہ ہی یہ ہوسکا ہے کہ اس کے ذریعے سے ایسے آدمی تیار ہوتے جو دین کے پور ے تصور کو سمجھتے اور اُس کی ۱قامت کی فکر انھیں لاحق ہوتی اور وہ اس کام کو انجام دینے کے اہل بھی ہوتے۔ اس تیسری قسم کے تصوّف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید۔ بلکہ اس کے پیروئوں اور حامیوں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ براہ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوّف پر کتاب وسنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں ۔ نیز جو شخص اس تصوّف کی کسی چیز سے اس بنا پر اختلاف کرے کہ وہ اسے کتاب وسنت کے خلاف پاتا ہے،تو قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی راے سے موافقت کریں یا مخالفت، بہرحال اس کے حق تنقید کا انکار نہ فرمائیں اور اسے خواہ مخواہ نشانۂ ملامت نہ بنانے لگیں ۔
تصوّر ِ شیخ
تصور شیخ کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ اس پر دو حیثیتوں سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔ایک بجاے خود ایک فعل ہونے کی حیثیت،دوسرے ایک ذریعۂ تقرب الی اﷲ ہونے کی حیثیت۔
پہلی حیثیت میں اس فعل کے صرف جائز یا ناجائزہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے، اور اس کے فیصلے کا انحصار اس سوال پر ہے کہ آدمی کس نیت سے یہ فعل کرتا ہے۔ ایک نیت وہ ہے جس کی تشریح حکیم عبدالرشید محمود صاحب نے اپنے مضمون میں کی تھی۔اس نیت کالحاظ کرتے ہوئے اسے حرام کہنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔دوسری نیت وہ ہے جس کی تشریح مولانا ظفر احمد صاحب نے کی۔اس نیت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ مشکل ہے کہ کوئی فقیہ اسے ناجائز کہہ سکے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے میں کسی شخص کو کسی اجنبیہ کے حسن کا نظارہ کرتے ہوئے دیکھوں اور اس حرکت کی غرض دریافت کرنے پر وہ مجھے بتائے کہ میں اپنے ذوق جمال کو تسکین دے رہا ہوں ۔ظاہر ہے کہ مجھے کہنا پڑے گا کہ تو یقیناً ایک ناجائز کام کررہاہے۔دوسرے کویہی حرکت کرتے دیکھوں اور میرے پوچھنے پر وہ مجھے جواب دے کہ میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔اس صورت میں مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ تیرا یہ فعل ناجائز نہیں ہے۔اس لیے کہ وہ اپنے فعل کی ایک ایسی وجہ بیان کررہا ہے جسے شرعاً میں غلط نہیں کہہ سکتا۔
اب رہی اس تصور شیخ کی دوسری حیثیت، تو مجھے اس امر میں نہ کبھی شک رہا ہے اور نہ آج شک ہے کہ اس حیثیت سے یہ فعل قطعی غلط ہے خواہ اس کی نسبت کیسے ہی بڑے لوگوں کی طرف کی گئی ہو۔میں کہتا ہوں کہ اﷲ سے تعلق پیدا کرنے اور بڑھانے کے ذرائع بتانے میں خود اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے ہرگز کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر کیوں ہم ان کے بتائے ہوئے ذرائع پر قناعت نہ کریں اور ایسے ذرائع ایجاد کرنے لگیں جو بجاے خود بھی مخدوش ہوں اور جن کے اندر ذرا سی بے احتیاطی آدمی کو قطعی اور صریح ضلالتوں کی طرف لے جاسکتی ہو؟
اس معاملے میں یہ بحث پیدا کرنا اُصولاً غلط ہے کہ جب دوسرے تمام معاملات میں ہم مقاصد شریعت کو حاصل کرنے کے لیے وہ ذرائع اختیا ر کرنے کے مجاز ہیں جو مباحات کے قبیل سے ہوں ، تو آخر تزکیۂ نفس اور تقرب الی اﷲ کے معاملے میں ہم کیوں انھیں اختیا ر کرنے کے مجاز نہ ہوں ؟ یہ استدلال اُصولاً اس لیے غلط ہے کہ دین کے دو شعبے ایک دوسرے سے الگ نوعیت رکھتے ہیں :ایک شعبہ تعلق با ﷲکا ہے، اور دوسرا شعبہ تعلق بالناس وغیرہ کا۔ پہلے شعبے کا اُصول یہ ہے کہ اس میں ہم کو انھی عبادات اور انھی طریقوں پر انحصار کرنا چاہیے جو اﷲ اور اس کے رسولؐ نے بتا دیے ہیں ۔ اُن میں کوئی کمی کرنے،یا ان پر کسی نئی چیز کا اضافہ کرنے کا ہمیں حق نہیں ہے۔ کیوں کہ اﷲ کی معرفت اور اس کے ساتھ تعلق جوڑنے کے ذرائع کی معرفت کا ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ کتاب اﷲ وسنت رسول اﷲ ؐ کے سوانہیں ہے۔ اس معاملے میں جو کمی یا بیشی بھی کی جائے گی،وہ بدعت ہوگی، اور ہر بدعت ضلالت ہے۔یہاں یہ اُصول نہیں چل سکتا کہ جو کچھ ممنوع نہیں ہے وہ مباح ہے۔ یہاں تو قیاس سے بھی اگر کوئی مسئلہ نکالا جائے گا تو لازماًاس کا کوئی مبنیٰ کتاب وسنت میں موجود ہونا چاہیے۔ بخلاف اس کے دوسرے شعبے میں مباحات کا باب کھلا ہوا ہے۔ جو حکم دے دیا گیا ہے اس میں حکم کی اطاعت کیجیے، جو کچھ منع کیا گیا ہے اس سے رک جایئے، اور جس معاملے میں حکم نہیں دیا گیا ہے اُس میں اگر کسی ملتے جلتے معاملے پر کوئی حکم ملتا ہو تو اس پر قیاس کرلیجیے، یا قیاس کا بھی موقع نہ ہو تو اسلام کے اُصول عامہ کے تحت مباحات میں سے جس چیز اور جس طریقے کو نظام اسلامی کے مزاج سے مطابق پایئے، اسے قبول کرلیجیے۔اس شعبے میں یہ آزادی ہمیں اس لیے دی گئی ہے کہ دنیا اور انسان اور دنیوی معاملات کے متعلق مصلحت کو جاننے کے عقلی اور علمی ذرائع کم ازکم اس حد تک ہمیں ضرور حاصل ہیں کہ کتاب اﷲ وسنت رسول اﷲ ؐ کی راہ نمائی سے مستفید ہونے کے بعد ہم خیر کوشر سے اور صحیح کو غلط سے ممیز کرسکتے ہیں ۔ پس یہ آزادی صرف اسی شعبے تک محدود رہنی چاہیے۔اسے پہلے شعبے تک وسیع کرکے، اورجو کچھ ممنوع نہیں ہے اسے مباح سمجھ کر،تعلق باﷲ کے معاملے میں نئے نئے طریقے نکالنا یا دوسروں سے اخذ کرکے اختیار کرلینا بنیادی طور پر غلط ہے۔ اسی غلطی میں مبتلا ہوکر نصاریٰ نے رہبانیت اختیار کرلی تھی جس کی قرآن میں مذمت کی گئی۔ (ترجمان القرآن، فروری۱۹۵۲ء)